ریت ،لہو اور آنسو رشید احمد منیب

ریت ،لہو اور آنسو رشید احمد منیب
فضا میں بارود کی بُو رچی ہوئی ہے۔ ہر سانس کے ساتھ گویا زہر کا ایک گھونٹ بھی بدن میں اترتا چلا جاتا ہے۔ یہ غزہ کی سر زمین ہے جو کبھی امیدوں اور خوابوں کا مسکن تھی مگر اب مسلمانوں کی بے چارگی کا نوحہ اور شہیدوں کا ایک وسیع قبرستان بن چکی ہے۔یہاں ہر دن گویا قیامت کا دن ہے ۔
یہ صرف دو دن پہلے کا قصہ ہے۔فاطمہ، جس کی آنکھوں میںکبھی ستارے جگمگایاکرتے تھے،اب ایک استخوانی پیکر بن چکی تھی اور اس کی بند ہوتی آنکھوں میںبجھی ہوئی شمع کا دھواں پھیلا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں اس کی چار سالہ بیٹی، نور کا تنکے جیسا ہاتھ تھا، جو بھوک سے نڈھال ہوکربے ہوشی کے قریب تھی۔ پچھلے کئی دنوں سے انھوں نے چند لقموں کے سوا کچھ نہ کھایا تھا۔ پانی کی بوند بوند کو ترستی ان کی زبانیںکانٹوں میں تبدیل ہو چکی تھیں۔
“امی! بھوک لگی ہے،” نور نے بمشکل سرگوشی کی۔
“امی ! بھوک لگی ہے “گویا غزہ کی ریت کے ہر ذرے نے نور کے الفاظ کو دہرایا تھا۔ چاند اور ستارے جگر تھامے یہ بازگشت سن رہے تھے ۔واذا الموؤدۃ سئلت کے سوال سے قبل یہ الفاظ شاید پوری کائنات میں گونج رہے تھے۔فرشتے دنگ تھے لیکن افسوس کہ وہاں سے کچھ ہی دور محلات میں بسنے والے عرب حکمرانوں کے کان اس صدا کو سننے سے محروم تھے۔
فاطمہ نے لکڑی بنے ہونٹوں سے اپنی لخت جگر کے مرجھائے ہوئےگال کو چوما۔ایک بے بس ماں کے پاس مامتا کے اظہار کے سوا کچھ نہ بچا تھا “بس تھوڑی دیر اور، میری بچی! امدادی قافلہ آ رہا ہے۔” یہ کہتے ہوئے اس کا اپنا دل ڈوب رہا تھا۔ گزشتہ روز بھی امداد کی تلاش میں گئے کئی لوگ اسرائیلی فوج کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے تھے۔ فاطمہ نور کو لے کر کبھی نہ آتی لیکن اب ان کے گھر میں کوئی فرد اس خدمت کے لیے موجود نہیں تھا۔ نور کی ڈوبتی ہوئی نبضوں کے ساتھ ساتھ اس کی بند ہوتی آنکھوں میںابھرنے والی موت لکیریں فاطمہ کو کسی بھی خطرے کا سامنا کرنے پر مجبور کر رہی تھیں۔
وہ محلے کے سابقہ مرکزی چوک کی طرف جا رہی تھی جہاں کچھ لوگوں کا ہجوم جمع تھا۔ سب کےچہرے پر ایک ہی سوال تھا: کیا آج ہمیں خوراک ملے گی؟ یا خوراک کی تلاش میں ہم موت کی وادی میں اتر جائیں گے ؟ہمارے بچے بڑے ہو پائیں گے یا وہ بچپن کی معصومیت کے ہمراہ دنیا سے رخصت ہوجائیں گے ؟ ایک چھوٹا سا بچہ جس کی آنکھیں بھوک سے پتھرا رہی تھیں ،دھیمی آواز میں اپنی بہنوں سے کہہ رہا تھا، “یہاں سے ہمیں چلے ہی جانا چاہیے ،امید ہے کہ جنت میں ہمیں کھانا ضرور ملے گا۔ “
ان میں ایک نو جوان لڑکا، احمد بھی تھا، جو غزہ ہی کا باسی تھا۔ اس کا دل اپنے بھائیوں اور بہنوں کے درد سے زخمی تھا۔ وہ روزانہ امدادی مراکز پر آنے والے بچوں اور بوڑھوں کی مدد کی کوشش کرتا تھا۔ اس کا خواب تھا کہ وہ اپنے جیسے عرب نوجوانوں کے ساتھ مل کر ایک دن غزہ کے لوگوں کے آنسو ضرور پونچھے گا لیکن اب اس کی ہمت جیسے جواب دے رہی تھی۔ “یہ کیسی امت ہے جو ہمیں یوں تنہا چھوڑ گئی؟” اس کا دل غم سے ڈوب ر ہا تھا۔
بھیڑ میں شامل ایک بوڑھا شخص، جس کے چہرے کی شکستہ جھریوں میں گزشتہ کئی دہائیوں کی جنگوں کا دکھ مجسم تھا، بلند آواز میں کہہ رہا تھا، “ہمیں تنہا چھوڑ دیا گیا ہے! عرب حکمران صرف اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔” اس کی آواز میںکپکپاہٹ بھی تھی لیکن کڑواہٹ بھی۔ “وہ امریکہ اور یورپ کے غلام ہیں، انھیںکیا پروا کہ ہمارے بچے بھوک سے مر رہے ہیں؟”
فاطمہ نے دیکھا کہ بھیڑ میں ہلچل ہوئی۔ امدادی ٹرکوں کا قافلہ دور سے آتا دکھائی دیا۔ سب کے مرجھائے ہوئے چہروں پر امید کی چمک نمودار ہوئی۔ نور نے اپنا سر اٹھایا، اس کی کمزور سی مسکراہٹ فاطمہ کے دل کو چیر گئی۔ “امی، کھانا!”
مگر یہ خوشی چند لمحوں سے زیادہ برقرار نہ رہ سکی۔ اچانک فائرنگ شروع ہو گئی۔انسانوں کے روپ میں ظالم درندے اپنی شیطانی تسکین کے لیے نہتوں،مظلوموں اور بے بس لوگوں کو نشانہ بنار ہے تھے ۔ چشمِ فلک نے ان انسان نما حیوانوں سے بد تر مخلوق اس روئے زمین پر نہیں دیکھی تھی۔ گولیوں کی بوچھاڑ نے امداد کے منتظر ہجوم کو درہم برہم کر دیا۔ افرا تفری مچ گئی۔ لوگ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنے لگے۔ فاطمہ نور کو اپنی گود میں بھر کر بھاگنے کی کوشش کر رہی تھی کہ ایک گولی اس کے کندھے پر لگی۔ وہ لڑکھڑا کر گر پڑی، نور اس کے سینے سے چمٹی ہوئی تھی۔
“امی! امی!” نور کی کمزور چیخیں فاطمہ کو سنائی دیں۔ فاطمہ نے اسے اپنے بازوؤں میں مزید مضبوطی سے جکڑ لیا، اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کے چند قطرے نکلے اور اس کے رخساروں پر بہتے لہو کا حصہ بن گئے ۔ یہ اس امت کی ایک بیٹی کا انجام تھا جس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے سردیوں کی طویل راتوں میں ٹھنڈے فرش پر بے تابانہ سجدے کیے تھے ۔ فاطمہ نے دم توڑنے سے پہلے نور کے ماتھے پر آخری بوسہ دیا، اس کی زبان سےدعا نکلی، “یا اللہ، میری بچی کو بچانا!” پھر یہ معصوم لہو اور مقدس آنسو غزہ کی ریت میں جذب ہوگئے ۔
احمد جو کچھ لمحے پہلے پانی کی بوتل تھامے ایک بچے کی طرف بڑھ رہا تھا،اپنی جان بچانے کے لیے ریتیلی زمین پر پڑا ہوا تھا۔ اس نے یہ منظر دیکھا۔ اس کا دل دہل گیا۔ اس نے اٹھ کر فاطمہ اور نور کی طرف بھاگنے کی کوشش کی، مگر گولیوں کی بارش اسے آگے بڑھنے نہ دے رہی تھی۔پھر ایک خوف ناک بم دھماکہ ہوا اور نور کا نورانی بدن ریت میں چھپتا چلا گیا۔ احمد نے دیکھا کہ کئی اور افراد شہید ہوچکے تھے ، وہ لوگ جو بھوک سے بلکتے اپنے بچوں کے لیے صرف ایک نوالہ ڈھونڈنے آئے تھے، انھیںموت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ غزہ کی زمین روزانہ ہی درجنوں فلسطینوں کو اپنے دامن میں چھپارہی تھی۔
وہ زندہ بچے لوگ جو امداد لینے کے لیے آئے تھے، اب لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ سینے میں آہو ں اور سسکیوں کودبائے اپنے پیاروں کی لاشوں کو پتھریلی زمین اور ریت کے ڈھیر میں چھپا رہے تھے۔ دن اسی طرح کٹ گیا۔ رات ہوگئی لیکن غزہ کے باسیوں کا کرب کم نہ ہوا۔
رات ہوئی تواحمد ایک عارضی پناہ گاہ میں لیٹا ہوا تھا۔ آج کے مناظر اس کی نگاہوں کے سامنے گھوم رہے تھے۔ اسے اپنے وجود میں ایک نئی تکلیف اٹھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس نے ہاتھ میں پکڑا پانی کا خالی ڈبہ مٹھی میں بھینچ لیا۔ “یہ کیسا عالمی نظام ہے؟” وہ درد سے چیخا۔ “کیا انسانیت کا ضمیر مر چکا ہے؟” اچانک اسے یوںمحسوس ہوا جیسے ابو عبیدہ کی گرجدار آواز اس کے کانوںمیں گونج رہی ہو،”مزاحمت جاری رہے گی!” یہ الفاظ نہیں توانائی کی ایک لہر تھی جو اس کے وجود میں دوڑنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں نمی تھی، مگر چہرے پر عزم کا ثبات ابھر آیا تھا۔ وہ بڑبڑایا ” یہ جنگ صرف ہتھیاروں کی نہیں ہے ۔ یہ جنگ ایمان ، خلوص،عزم اور حوصلے کی جنگ ہے۔”
یہ احمدکی نہیں غزہ کے ہر نوجوان کی کہانی ہے۔یہاں ایسے ہزاروں نوجوان موجو د ہیں جو ظلم سے ٹکر لینے کے لیے تیارہیں ۔وہ کسی بھی صورت ظالم کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے ۔ جدید استعمار انھیں غلام نہیں بنا سکے گا۔ بیس ماہ کی جنگ میں مسلسل قربانیاں دے کر غزہ نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ وہ تنہا لڑنے کو تیار ہے۔ اہلِ عزہ موت کا سامنا کر سکتے ہیں، لیکن ہار نہیں مانیں گے۔ یہ مزاحمت، یہ یقین ہی ان کی بقا کا ضامن ہے ۔
اس رات، احمد کو فاطمہ اور نور کے آخری لمحات یاد آئے۔ بھوک سے بلکتے بچوں کا درد، امداد کے لیے جمع ہونے والوں کی امید اور پھر وہ لہو اور آنسو جو غزہ کی ریت میں جذب ہوگئے تھے ۔ اس نے سوچا ،میں کسی بھی وقت کسی گولی یا میزائل کا نشانہ بن سکتا ہوں ۔کیوں نہ میں اپنے ان بھائیوں کے لیے ایک پیغام تحریر کردوں جو شاید ہماری طرح ہی بے بس ہیں، لیکن کبھی تو وہ ہماری فریادکا جواب دیں گے ۔ اس نے کاغذ کا ایک ٹکڑا اٹھایا اور لکھنا شروع کیا:
“غزہ ایک علامت ہے، اس دنیا کی بے حسی اور صہیونی دہشت گردی کی۔غزہ بھوک سے دم توڑ رہاہے ۔ مگر یہ تباہ حال خطہ مزاحمت کا استعارہ اور مظلوموں کے عزم نشان بن کر تاریخ میں زندہ رہےگا۔ اے مسلم امہ کے دلیر جوانو! کیا آپ ہمیں یاد رکھیں گے؟کیا آپ کبھی اپنے اندر کے خوف کو ختم کریں گے؟کیا آپ اس ظلم کے خلاف ہمارا ساتھ دیں گے ؟کیا آپ میدان میں ڈٹ پائیں گے۔؟”
اس کے قلم کے لرزیدہ نقوش دراصل اس قوم کو آواز دے رہے تھے جو کبھی ایک بیٹی کی پکار پرہزاروں میل کی مسافت کو خاطر میں نہ لاتی تھی لیکن آج چند کلو میٹر کا فاصلہ، چند دیواریں اور نام نہاد وطنیت اس کے قدموں کی زنجیر بن چکے تھے۔ اس کے الفاظ دراصل ہر اس فلسطینی کے درد کی تصویر تھے جس نے یہ حسن ظن رکھا تھا کہ اس کے پشت پر ایک وطن اور ایک امت موجود ہے، لیکن آج وہ خو د کو اس دنیا میں تنہا سمجھ رہا تھا۔
ریت پر بکھرے آنسو اور مسلسل گرتے ہوئے لہو کے قطرے اس بات کی علامت ہیں کہ اہل غزہ کا امتحان جاری ہے لیکن وہ بہت جلد شاید ختم ہونے والا ہے البتہ ایک اور امتحان قریب آتا جار ہا ہے جب ریت میں گاڑھی گئی بچی سے پوچھا جا رہا ہوگا،کوئی بے پناہ جاہ و جلال کے ساتھ سوال کررہا ہوگا کہ اے لڑکی بتاؤ ! تم کس جرم میں قتل کی گئی تھیں ؟ شاید اس وقت غزہ کے پتھر ان سرگوشیوںکی گواہی دیں گے جو نور اپنی ماں فاطمہ سے کررہی تھی اور ریت کے لاکھوں ذرے مظلوموں کے مقدس آنسوؤں اور پاکیزہ لہو کے قطروں کو امانت کے طورپر اٹھائے ہوئے مالک یوم الدین کی عدالت میں حاضر ہو جائیں گے ۔اس وقت فاطمہ جیسی مائیں کہہ رہی ہوں گی، اے رب !ہمارے مجرم عربوں کے حکمران ہیں۔

تبصرہ کریں

Your email address will not be published. درکار خانے * سے نشان زد ہیں