نیا تمدن
اراکان میں مسلمانوں کی بستیاں راکھ کا ڈھیر بن چکی ہیں۔یہاں اب درندوں کا راج ہوگا۔بدھ نسل پرست اپنی ’’بہادری‘‘پر فخرجتائیں گے ۔انڈیا کے برہمچاریوں کی طرح برماکے بدھ منک بھی اپنے کیے پر اترا رہے ہیں۔مسلمانوں سے جان چھڑاکرانھوں نے اپنے’’ مت‘‘ کا تحفظ کیا ہے لیکن وہ ایک پنتھ ،دوکاج کا مزابھی لیں گے۔ وہ بھارتی یا چینی کمپنیوں کی سرمایہ کاری سے ’’اللے تللے ‘‘اورموج مستی کے خواب پورے کرسکیں گے۔ غریبوں کے جھونپڑوں پر محلات تعمیر ہوں گے ۔
اراکان کی سرزمین میں قیمتی معدنیات پوشیدہ ہیں۔مسلمانوں کا صفایا ہونے کے بعدجلدہی یہاں بھارتی یا چینی کمپنیاں تیل اور گیس کی کھوج میں ڈیرے جمائیں گی۔لوہے ،تانبے،چاندی اور دیگر دھاتوں کا سراغ لگایا جائے گا۔قیمتی پتھروں کی کانیں کھودی جائیں گی۔اس زرخیززمین کی زرعی پیداوار بھی بڑھ جائے گی اور میانمار کی برآمدات میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔یوں چینی اور بھارتی سرمائے کے بل پر بدھ نسل پرست عیش کریں گے ۔ مسلمانوں کے قتل پرآنگ سانگ سوچی بلا وجہ خاموش نہیں ہے ۔ یہ شیطان کی خالہ جانتی ہے کہ میانمار کا بھاؤچڑھ گیاہے ۔اس کا جغرافیائی محل وقوع سرمایہ دار چین کو للچا رہا ہے تو برہمن نسل پرست بھارت کی رال بھی ٹپک رہی ہے ۔یہ دونوں ریاستیں میانمار کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرنے کے لیے ایک دوسرے پربازی لے جانا چاہتی ہیں۔
بھارت اورچین کے درمیان فی الحال اینٹ ،کتے کا بیر ہے ۔دونوں ایشیاء کی بڑی طاقتیں ہیں اور دونوں ہی کسی نہ کسی انداز میں اپنی اپنی چادرکوپھیلارہی ہیں تاکہ پاؤں پھیلا نے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔چین کی بڑھتی طاقت بھارت کے لیے دل کا پھانس ہے ۔چین کا سکہ جم گیا تو بھارت کا مقدر کھوٹا ہوسکتا ہے ۔منی پور اور ناگا لینڈ بھارت کے قبضے سے نجات پاسکتے ہیں۔ان خطوں کے باسی شکل و صورت اور مزاج کے اعتبار سے چین کے زیادہ قریب ہیں۔ان کی سرحدیں چین کے ساتھ جڑی ہیں ۔وہ الگ زبان ،کلچر اور شناخت کے حامل ہیں ۔وہ کسی طور انڈین نہیں لگتے ۔وہ ایک الگ قوم ہیں۔انڈین آرمی ان پر بے پناہ مظالم ڈھا رہی ہے ۔ان کی عزتیں پامال کی جارہی ہیں اور انھیں غلاموں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔چناچہ ردعمل میں ایک آزادسوشلسٹ ناگالینڈ کی تحریک سرگرم ہے ۔چین آنکھیں بند کر کے بھی اس تحریک کی پشت پر ہاتھ رکھ سکتا ہے ۔اس خطرے کے پیش نظربھارت کا برہمن راج ہر قیمت پر یہ چاہے گا کہ وہ قریبی ممالک کو چین کی چھتری تلے نہ جانے دے ۔ بھارت دیکھ رہا ہے کہ چین میانمار میں کئی بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا ہے ۔بے بنگال کے سمندر تک رسائی کے لیے وہ میانمار میں ایک بندرگاہ بنا چکا ہے اور اب ون بیلٹ ون روڈ اس بندرگاہ تک پہنچنے ہی والا ہے ۔اس روڈ کے ذریعے چین کی مصنوعات بندرگاہ تک آئیں گی اور وہاں سے انڈونیشیا،مالائیشیاء،سری لنکا اور آسٹریلیا تک سمندر کے راستے بہت جلد پہنچ جائیں گی ۔بھارت چین کی ان کامیابیوں کو ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہیں کرسکتا۔
بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کے باوجودچین تجارت کے لیے بھارتی سمندر کو استعمال نہیں کرنا چاہتا ،کیوں کہ چین اور بھارت کئی معاملات میں ایک دوسرے کے خصم ہیں۔ چنانچہ بھارتی قیادت بھی چانکیہ سیاست کے پتے کھیل رہی ہے ۔میانمار کے ساتھ تعلقات میں چین اور بھارت کی رقابت شدت اختیار کرسکتی ہے ۔ایشیاء کے یہ دونوں بڑے ملک میانمار کو اپنی چھتری تلے لانے کے لیے کوشاں ہیں۔چین میانمار کو تجارتی اور سفارتی ذرائع سے اپنا دم چھلا بنانا چاہتا ہے تو انڈیا دفاعی اور مواصلاتی معاہدوں کے ذریعے اسے رجھانے میں مصروف ہے ۔ چین کی طرح بھارت نے بھی میانمار میں بھاری سرمایہ کاری کررکھی ہے۔بھارت تھائی لینڈ اور میانمار کو ایک سڑک کے ذریعے جوڑ رہا ہے ۔یہ سڑک دو طرفہ تجارت کے علاوہ غالبا منشیات کی خفیہ اسمگلنگ کے لیے بھی استعمال ہوگی۔ یہ خطہ افغانستان کے بعدمنشیات کی پیداوار کا سب سے بڑا گڑھ ہے اور بھارتی نیتا دولت کی گنگا میں ہاتھ دھونے کا کوئی موقع بھلاکیسے جانے دے سکتے ہیں ؟بھارتی پارلیمنٹ کے پچیس سے پینتیس فیصد ممبران اس وقت بھی سنگین جرائم میں ملوث ہیں جن کے باقاعدہ مقدمات درج ہیں ۔ان مقدمات میں ناجائز اسلحے اور منشیات کی اسمگلنگ کے علاوہ زمینوں پر ناجائز قبضے ،آبروریزی ،اغواء برائے تاوان اور قتل جیسے مقدمات شامل ہیں ۔بھارت کے بہت سے علاقوں میں اس بات کو عقیدے کا درجہ حاصل ہے کہ بڑے جرائم میں ملوث ہوئے بغیر سیاسی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی ۔بھارتی نسل پرست نیتاؤں کی حرص کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ وہ کس حد تک منشیات کی بین الاقوامی اسمگلنگ سے دور رہنا پسند کریں گے ؟میانمار اور بھارت کے عوام کو پیشگی مبارک باد کہ ان کی اگلی نسل بہت جلد دھوئیں کے مرغولے اڑاتی دکھائی دے گی ۔کووں کو قیادت سونپنے والے کتے کی لاش پر ہی پہنچتے ہیں۔
پیسے کی خاطرہونے والی بیلوں کی لڑائی میں غریب روہنگیا مینڈکوں کی طرح کچلے گئے ہیں۔بدھسٹوں کا تعصب اپنی جگہ ہے ۔غریب مسلمانوں پر پیسہ خرچ کرنے کی بجائے انھیں عبرت کا نشان بنادیاگیا تاکہ وہ خواب میں بھی اراکان واپسی کا نہ سوچیں۔افلاس زدہ خطے کے وسائل سے محروم انسانوں کو اس لیے بے گھر کردیاگیا کہ ان کی زمین کچھ بڑی طاقتوں کو پسند آگئی تھی ۔ ان حالات میں انکل سام بھلاکیوں پیچھے رہیں گے ؟وہ میانمار کی سرحدوں پر بین الاقوامی امن افواج بھیجنے کی راہ نکالیں گے تاکہ چین کی بجائے امریکی کمپنیوں کو قدرتی وسائل تک رسائی مل سکے ۔انکل سام کومعاملات میں ٹانگ اڑانے کا بس ایک موقع ہی درکارہوتاہے جو بھارت روہنگیا مسلمانوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل کرکے فراہم کررہاہے ۔بنگلہ دیش کی حسینہ واجد بھی بے آسرا اور بے سہارا مسلمانوں کو کوس رہی ہے جو بنگلہ دیش کے دروازے پر بھوکے ننگے پڑے ہیں۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے لیے یہ سنہری موقع ہے ۔وہ آواز اٹھائیں گی تو شور مچے گا اور بات خود بخوددورتک جائے گی ۔
روہنگیا کی لاشوں اور ان کی جلی ہوئی بستیوں کی راکھ پر نئے تمدن کی تعمیر تو ہوجائے گی لیکن انسانوں کو پیدا کرنے والارب ایک دن ضرور پوچھے گا کہ بتاؤ! معصوم بچوں کوکس جرم میں قتل کیا تھا ؟شکر ہے کہ وہ دن سرپر آپہنچاہے ۔
