نیاوطن ۔ ۔ ۔ ۔
باتیں: کالم روزنامہ اسلام ، رشید احمد منیب
ترکی میں لاکھوں بچوں نے اسی ماہ اسکولوں میں قدم رکھا ہے۔ان میں ہزاروں شامی بچے بھی ہیں۔یہ مہاجر بچے عربی بولتے ہیں ۔انھیں ترکی زبان نہیں آتی ،اس لیے وہ ترک معاشرے میں اجنبیت محسوس کرتے ہیں۔ پوچھا جائے تو وہ بتاتے ہیں کہ وہ اپنے گھروں کو لوٹنا چاہتے ہیں۔اپنا گھر اپنا ہی ہوتا ہے ۔لیکن ان کا ملک آگ اور خون میں ڈوب چکا ہے ۔ظالم اسد ان کی جانوں کا دشمن ہے جس کے میزائل بچوں کے گھروں کونشانہ بناتے ہیں۔اس کے بمبارطیارے اس وقت بھی شام کی سنی آبادی پر آگ برسا رہے ہیں۔اس لیے یہ شامی بچے اپنے وطن شاید کبھی نہ لوٹ سکیں۔ترکی ہی ان کا نیا وطن ہے۔یہ پھول اب ترکی میں کھلیں گے۔ترکوں نے ان بے گھر بچوں کے لیے اپنے دل کشادہ کرلیے ہیں۔انسانی احترام پر یقین رکھنے والے ترکی میں لاکھوں شامی مہاجرین روزگارپاچکے ہیں ۔وہ ترکی میں نئی زندگی کی بنیادیں رکھ چکے ہیں۔شام کی تلخ یاد یں ان کے دلوں میں سلگتی رہیں گی۔ان کے ہاتھ ترکی کی تعمیر میں مصروف رہیں گے۔ان کے بچے ترکی کے خوبصورت شہروں میں ترکوں کے مہربان سائے میں نشونما پائیں گے۔میں سوچ رہا ہوں ،ترکوں میں یہ دریا دلی کہاں سے آئی؟
ترک روایات پسندقوم ہے ۔بہادری اس کے خمیر میں شامل ہے ۔اس نے قریبا ساڑھے چھ سو سال عالم اسلام کی قیادت کی ہے ۔ترکوں نے غلامی قبول نہیں کی۔ان کے مزاج میں آزادی ہے ۔بردباری ہے اور تحمل ہے۔ان صفات کا اظہار پندرہ جولائی کی سیاہ شب کو بھی ہوا تھا جب ترکوں کی آزادی اور خود مختاری پر شب خون ماراگیا تھا۔وہ رات تمام عالم اسلام پر بھاری تھی۔غیرملکی سازش کا شکار کچھ ترک اپنے پاؤں میںآپ کلہاڑی مار رہے تھے۔یہ بغاوت کامیاب ہوجاتی تو ترکوں کی بہار خزاں میں بدل جاتی۔ ترکی خانہ جنگی کی راہ پر جا پڑتا ۔ترکی کی تیز رفتار اقتصادی ترقی الٹے پاؤں چلنے لگتی ۔پھر روہنگیا کے آنسو پونچھنے والا کوئی ہوتا نہ شام کے معصوم بچوں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ رکھنے والا۔ نبی رحمت کی دعا کاصدقہ ہے کہ پوری امت مسلمہ ایک ساتھ نہیں مٹے گی۔ یہ دعا مسلمانوں کی تاریخ میں بارہا نمودار ہوئی ہے۔ترکی میں یہ دعا ترکوں کے جذبہ حب الوطنی کی صورت میں ظاہر ہوئی ۔ترکوں نے روایتی بہادری اور استقامت سے کام لے کر ایک سیاہ شب کے بھیانک خواب کو امید بھری صبح میں بدل ڈالا۔ یہ صبح شام کے معصوم بچوں کے لیے بھی خوشیوں کا سامان ثابت ہوئی۔رواں ماہ ہزاروں شامی بچے ،اپنے نئے وطن کے اسکولوں میں ترکی بچوں کے قدم بقدم ہیں۔ان عربی بچوں کو پہلے مرحلے میں ترکی سکھائی جارہی ہے تاکہ یہ بچے ترک معاشرے میں گھل مل سکیں۔ترک بچوں کو عربی بچے خودہی عربی سکھادیں گے۔ ترک معاشرے میں عربی کو حیات نو نصیب ہو گی ۔
ترکوں کے فطری اوصاف کوان کے نظام تعلیم نے مزید چار چاند لگائے ہیں۔ اخلاقی اقدار ،سماجی روایات اور کردارسازی ترک نظام تعلیم کی بنیادہے۔ترکی کا نظام تعلیم عمل پر زوردیتا ہے۔ روایتی اور غیر روایتی دونوں طرز کی تعلیم یکساں اہمیت رکھتی ہے۔پرائمری میں بنیادی مہارتیں، کلچر،صلاحیتیں،رویے اورعادتیں سکھائی جاتی ہیں تاکہ ہر بچہ ایک اچھا شہری ثابت ہوسکے اور اپنی زندگی خود سنوار سکے۔تعلیم لازمی ہے۔ننانوے فیصد بچے اسکول کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔تعلیم گریڈ سسٹم کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔آٹھویں گریڈ تک پرائمری کی تعلیم مکمل ہوجاتی ہے ۔اس کے بعد ہائی اسکول کی تعلیم کا مرحلہ آتا ہے جس میں بچے کے سامنے مختلف راستے ہوتے ہیں ۔ نواں گریڈ مشترک ہوتاہے ۔دسویں گریڈ سے ہائی اسکول کی تعلیم دو حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ بچہ اختیار رکھتا ہے کہ وہ ووکیشنل گروپ میں جائے یا جنرل گروپ میں۔ہائی اسکول کی تعلیم کا مقصدبنیادی مشترکہ کلچر ،داخلی اور سماجی مسائل کی شناخت،مسائل کا حل تلاش کرنا ،ملک کی ثقافتی،سماجی اور معاشی ترقی کے لیے بچوں کے شعور کو بلند کرنااور انھیں اعلی تعلیم اورمزید عملی مہارتوں کے لیے تیار کرنا ہے۔ہر مضمون کے لیے ماہر استاذ کا تقرر کیا جاتا ہے ۔تعلیم ہر ایک کے لیے ہے ۔ رنگ ونسل اور مذہب و قوم کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔سوشل اسٹڈیز،سائنس،سوکس،انسانی حقوق ، ریاضی ،اتاترک کی اصلاحات،ترکی زبان ،ترک تاریخ،میوزک ،آرٹ اور فزیکل فٹنس ،ٹریفک سیفٹی ،فرسٹ ایڈ،کرئیرگائڈنس ،مذہبی کلچراورغیر ملکی زبانیں تعلیم کاحصہ ہیں۔صدر رجب طیب اردگان نے نصاب تعلیم میں اصلاحات کی ہیں ۔اب بنیادی دینی تعلیم بھی نصاب میں شامل کی جاچکی ہے۔انگلش،جرمن اور فرنچ میں سے کوئی ایک زبان ضروری ہے۔ترکی کا نظام تعلیم بنیادی طور پر ترک آئین اور کلچر کی عکاسی کرتا ہے۔ترکوں میں نظم و ضبط ،شائستگی اور عزت نفس کا احساس ان کے نظام تعلیم کی خوبیوں کواجاگر کررہا ہے۔
کاش ہم بھی ترکی سے کوئی سبق سیکھ سکیں۔ زبانیں ضرورت کی بنیاد پر سیکھی اور سکھائی جاتی ہیں۔اصل شے وہ صحیح رویہ ہے،جو تعمیر کردار کی بنا پر تشکیل پاتا ہے اور جوبچوں کوسکھانے کی ضرورت ہے ،لیکن ہم نے اب تک اس ضرورت کا احساس نہیں کیا ۔اتاترک نے ترکی کو یورپ بنادیا تھا لیکن گزشتہ پندرہ برسوں میں ترکی بدل چکا ہے۔گو ظاہری کلچر میں بڑی تبدیلی نہیں آئی لیکن ترک قوم نے جس طرح شامی مہاجرین کا استقبال کیا ہے اور جس طرح ان کے بچوں کا اکرام کیا جارہا ہے،وہ دلیل ہے کہ اتا ترک کا سیکولر اور قوم پرست ترک رفتہ رفتہ ماضی کا حصہ بنتا جارہا ہے ۔ترکی ایک نیا وطن بن رہا ہے ۔
