جھوٹ کی کاشت

جھوٹ کی کاشت

کالم روزنامہ اسلام:رشید احمد منیب

افغانستان میں داعش کے ٹھکانے پر امریکی بمباری ہوئی تو تیرہ بھارتیوں کی لاشیں بھی برآمد ہوئیں۔اس ”دریافت“ پریار لوگ خاصے بھنائے مگر خود کردہ را علاج نیست، چور کی ڈاڑھی میں تنکا دنیا نے دیکھ ہی لیا۔چور مچائے شور کے مصداق شمسا سوراج اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں،ٹرمپ کے جوتے پر جوتا رکھ کر،پاکستان پر خوب برسیں۔اپنے منہ میاں مٹھوبن کر بھارت کی راگنی گائی اور مظلومیت کا سیاپا بھی ڈالا۔شاید وہ بھول گئیں کہ بھارت کو عورتوں کے لیے غیرمحفوظ ملک پاکستان نے نہیں بنایا،اسے ”نیشن آف چائلڈ ابیوز“کا تمغہ برائے حسن کارکردگی دلوانے میں بھی بے چارے پاکستانیوں کا کوئی دخل نہیں،وہ چاہیں بھی تو انڈیا نہیں جا پاتے۔دنیا کی چھٹی بڑی فوجی قوت، دوسری بڑی آبادی اور سب سے بڑی جمہوریہ ”نیشن آف ہنگر“ بھی کہلاتی ہے۔یہاں کم از کم بیس کروڑ لوگ شکم سیر نہیں ہوپاتے۔چالیس فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔بہتر نشونما نہ ہوئی تو انھیں نفسیاتی امراض دبوچ لیں گے۔ پینے کا صاف پانی بمشکل ملتا ہے۔آدھی آبادی رہائش کو ترستی ہے۔ انڈیا کو ”موسٹ کرپٹ کنٹری“کاخطاب بھی دیا گیا ہے۔

جب آوے کا آوا بگڑا ہو تو لوگ تنگ آمد بجنگ آمد پر عمل کرتے ہیں۔سو انڈیا میں آزادی کی قریبا اکیس بڑی تحریکیں سرگرم ہیں۔شمال مشرقی انڈیا ان تحریکوں کا خاص گڑھ ہے۔آسام کے کئی اضلاع پرعلیحدگی پسندوں کا راج ہے۔ناگا لینڈمیں مسلح باغی سینکڑوں انڈین سپاہیوں کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں۔بہار،اڑیسہ اور آندھرا پردیش میں بھی علیحدگی پسندی کے احساسات پنپ رہے ہیں۔منی پور اور تری پور کی نئی نسل الگ ریاست کے خواب دیکھ رہی ہے۔ بھارتی پنجاب کی بھیگی ہوئی زمین میں بھی آزادی کے جذبات سلگ رہے ہیں۔خالصہ تحریکیں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک آزادخطے کا اضافہ چاہتی ہیں۔خالصہ لیڈروں کو یقین ہے کہ گاندھی اور نہرو نے سکھوں کو چونالگایاتھا۔ انھوں نے جھوٹ بولا تھا۔ سکھوں کواب آزادی چاہیے۔ان کا خیال ہے کہ بھارتی حکومت آج بھی یورپ کی چاکری کرتی ہے۔ آزادخالصتان تحریک کئی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے،اس لیے کارگر نہیں ہورہی،ورنہ انڈیا کی نسل پرست حکومت کے چھکے چھوٹ چکے ہوتے،وہ مقبوضہ کشمیر کو بھول جاتی جہاں بھارتی سورما اپنی بہادری ثابت کرنے لیے ممنوعہ پیلیٹ گن سے اسکولوں اور کالجوں کے بچوں کی آنکھیں پھوڑ رہے ہیں،ایک پوری نسل رفتہ رفتہ اندھی ہوتی جا رہی ہے لیکن دنیا مہر بہ لب ہے،اسی لیے پاکستان کی نمائندہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے انڈیا کو ”مدر آف ٹیررز“ کہا ہے۔انڈیا گورنمنٹ کو یہ اعزاز شکریے کے ساتھ قبول کرنا چاہیے کیوں کہ بی جے پی اور آرایس ایس کے مسلح جتھے اور غنڈوں کے غول انڈیا بھر میں یہی کچھ توکرتے پھر رہے ہیں،آئینہ دکھانے پر برا ماننے کی کیا بات ہے؟

پاکستان میں ٹریننگ کیمپ کسی نے دیکھے یا نہیں،لیکن انڈیا کے کئی اسکولوں میں ہتھیار چلاتے’اسٹوڈنٹ“ عالمی میڈیا دیکھ چکا ہے۔بچوں کی مسلح تربیت کا جواز پوچھا جائے تو ”داعش“ جیسی تنظیموں سے مقابلے کا عزم منہ پھاڑکر ظاہر کیا جاتاہے،وہی داعش جسے بھارتی اسلحہ ساز کمپنیاں اسلحہ فروخت کررہی ہیں،جس کے ایک ٹھکانے سے تیرہ بھارتی اہم افراد کی لاشیں اتفا ق سے”دریافت“ہوئیں۔اوپروالے کے بھید بھی نرالے ہیں۔ جھوٹے کو اس کے گھر میں رسوا کردیتاہے۔ویسے مودی سرکارکے لیے رسوائی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔جس کی آستین پر گجراتی اور کشمیری بچوں کا لہوہو،محض رسوائی سے اس کی صحت پرکیاخاک اثر ہوگا؟۔انڈیا کی قسمت میں ہی ایسا لیڈرتھا جو سفید جھوٹ بولے اورضمیر پرذرہ بھر بوجھ محسوس نہ کرے۔مودی نے سوئزرلینڈکے بینکوں سے بلیک منی واپس لانے کا اعلان کیا لیکن عمل ندارد۔ دوکروڑ نئی نوکریاں پیدا کرنے کا وعدہ کیا اور کانگریس حکومت سے نصف تعداد میں بھی نوکریاں نہیں نکالیں۔گجرات کو ترقی کا رول ماڈل بتاکر ووٹ لیے لیکن بجلی وہاں بھی سب کو نہیں دی۔مودی نے معاشی ترقی کی خوش خبری دی جسے ماہرین نے مسترد کردیا۔معاشی گراف پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ مجموعی بھارتی معیشت رو بہ زوال ہے۔ مودی سرکار کے جھوٹ کا پول کھلتا ہی جارہاہے لیکن ووٹوں کی خاطر نت نئے جھوٹ گھڑناگویامجبوری ہے۔عوام کو دیش بھگت بنانے کے لیے سینما اورکرکٹ کافی نہ ہوں توپاکستان کی ایٹمی قوت کابھوت دکھاکرکام نکالاجاتا ہے۔ اس کے نت نئے میزائلوں سے ڈرایا جاتاہے اور ٹکر کی تیاری کے دعوے کیے جاتے ہیں تاکہ گاجر اور لاٹھی دونوں سے کام لیا جا سکے۔ایسے ہی شورشرابے میں ”سرجیکل اسٹرائک“ کا بلند بانگ دعوی بھی ہوا لیکن اس غبارے میں اپنے ہی فوجیوں نے سوئی چبھو دی۔

مودی سرکار علیحدگی پسندوں کاتوکچھ نہیں بگاڑپائی لیکن اس کا زورمسلمانوں پر خوب چلتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے محصور مسلمانوں کو دن رات ذبح کیا جا رہا ہے۔انڈیا کے دیگرصوبوں میں بھی مسلمانوں کی حالت کچھ اچھی نہیں ہے۔آرایس ایس اور بی جے بی کے غنڈے گاؤماتاکے نام پر ان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔جھوٹ کی انتہا ہے کہ آرایس ایس کے سنگھ پروپیگنڈہ سیل نے ضلع کرناٹک میں طالبان کے قبضے کی خبر جاری کی جس پر بہت سے لوگوں نے یقین بھی کرلیا۔سنگھ پروپیگنڈہ سیل کا یہی کام ہے کہ وہ نئے نئے جھوٹ گھڑکر ہندؤوں کو مسلمانوں سے ڈراتا رہے تاکہ آئندہ انتخابات میں عوام خود کو بچانے کے لیے انتہا پسندوں کو ووٹ دیں۔انڈیا کے عام آدمی کو کون سمجھائے کہ پاکستان ا س کے لیے خطرہ نہیں ہے۔عام آدمی کے لیے خطرہ وہ جھوٹ ہے جو مسلسل کاشت کیا جارہا ہے۔

جھوٹ مذہبی انتہا پسندوں کی ضرورت ہے۔ اسی جھوٹ کے ذریعے وہ ”ہندومت“کوبچانے کی کوشش کررہے ہیں۔حالانکہ ہندو مت سرے سے کوئی مذہب نہیں ہے۔ اس کا کوئی بنیادی عقیدہ نہیں ہے۔مندر،بتوں کی پوجا اورشادی بیاہ اور پیدائش و موت کی رسوم ورواج جن کو”ہندو مت“ماناجاتا ہے،یہ نام انھیں گزشتہ دوسوسال کے دوران ملاہے۔ ہندوستان پر یورپی اقوام کے تسلط کے بعد یہ لفظ عام ہوا۔ اس سے پہلے خطے میں ویدک تہذیب رائج تھی جس نے ”سناتن دھرم“ پیش کیا تھا۔یہ اس مذہب کا نام تھا جو ایران یا وسطی ایشیاء سے آنے والی آریہ قوم نے یہاں کے باشندوں کواپنا غلام بنانے کے لیے خود گھڑا تھا۔ان کا سب سے بڑا جھوٹ یہ تھا کہ وہ خود کو برہما یعنی خدا کے منہ سے پیدا ہونے والی اعلی ترین انسانی نسل یعنی برہمن کہتے تھے کیوں کہ وہ صاف رنگت اور اونچی ناک والے لوگ تھے جنھیں مذہب نے نسلی برتری اور مذہب کی تشریح کاحق دیاتھا۔یہاں کے قدیم مقامی باشندے سیاہ رنگت اور چپٹی ناک والے ”ہندو“ تھے جو آریاؤں کے جھانسے میں آگئے اور غلام بن گئے۔

آج ہندو مت میں جین،چاورک،بودھ اور سناتن دھرم کے اصل پیروکار یعنی برہمن سب ہی شامل ہوگئے ہیں۔اس دیش کے اصل باشندے یعنی دلت اور شودر آج بھی جانوروں سے بدتر زندگی گزاررہے ہیں۔برہمن آج بھی بالا دست ہے اور جھوٹ اورچالاکی سے سیاست اور مذہب کے داؤ کھیل کر ہندؤوں پرحکمرانی کررہاہے۔بالا دست طبقے کے سوا، انڈیا کے عوام کی حالت پتلی ہے۔ کاش ”ہندو“طبقاتی دہشت گردی سے بچ سکیں اور وہ جھوٹ کے اس طلسم کوتوڑسکیں جس نے انھیں،غربت،اخلاقی پستی،جہالت اور خوف کا مریض بنا رکھا ہے۔ رہے مودی اور ان کے ساتھی، وہ بالا دست برہمن طبقے اور عالمی ساہوکاروں کی امیدوں پر پورے نہ اترے تواقتدار کے بعد انڈیا کی زمین ان کے لیے تنگ پڑجائے گی۔ عوام ان کے ہاتھوں بے وقوف بنے رہے تواسرائیل اور امریکا کی آشیربادبھی حاصل رہے گی اور برہمن کا ساتھ بھی،ہاں مودی جی کی ”برکتوں“سے انڈیا نیشن کو نئے نئے القاب ضرورملتے رہیں گے جیساکہ بھارتی عوام کو پیار سے ”نیشن آف دا یوز فل ایڈیٹ“ بھی پکاراجاتا ہے۔

تبصرہ کریں

Your email address will not be published. درکار خانے * سے نشان زد ہیں