دیو ۔۔۔۔

دیو ۔۔۔۔

باتیں:رشیداحمدمنیب

دنیا آتش فشاں کے دھانے پر کھڑی ہے ۔ نئے دور کی نئی جنگوں کے لیے میدان سج چکا ہے۔ریت میں منہ چھپا کر جینے والے،اس جنگ کاا یندھن بنیں گے۔ا قوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں امریکی صدر کے آتشیں الفاظ آگ بھڑکا سکتے ہیں۔ان کے جملے غرور اورتعصب میں ڈھلے ہوئے تھے۔ریڈیکل امریکی صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں خوب تانیں اڑائیں۔شمالی کوریا،ایران اوروینزویلا پر آوازیں کسیں۔وہ ان تینوں قوموں کی ہنسی اڑاکر دل ٹھنڈاکرتے رہے۔ انھوں نے شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان کو ’’ راکٹ مین‘‘ کا تمغہ دیا ،امریکی صدر نے پیش گوئی کی ،’’راکٹ مین خود کش مشن پر ہے‘‘۔ٹرمپ نے ایک قدم ماضی کے اسٹیج پر رکھا اوربارک اوباما کے الفاظ دہرائے’’وینزویلا کی بائیں بازوکی حکومت امریکا کے لیے خطرہ ہے،ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتے‘‘۔انھوں نے ایران کوللکارا’’بدعنوان آمریت مشرق وسطی کوبحران سے دوچار کرنا بند کردے‘‘ انھوں نے پاکستان کا نام لیے بغیر آنکھیں نکالیں اور منہ بگاڑا’’امریکا کا فائدہ نہیں اٹھانے دیا جائے گا،یکطرفہ معاہدوں کا حصہ نہیں بنا جائے گا‘‘۔انھوں نے سوشلزم کی گردن دبائی’’اس سے صرف ذہنی تکلیف،ناکامی اور تباہی آئی ہے‘‘۔

اقوام عالم کے سامنے نسل پرست امریکی صدر کی تقریر ر ی پبلکن کے مزاج کی عکاسی تھی ۔ری پبلک پارٹی کا انتخابی نشان ہاتھی ہے۔ ہاتھی قوت اور دبدبے کی علامت ہوتا ہے ۔ ری پبلکن امریکا کو دنیا میں اسی علامت کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں۔ری پبلکن صدر ٹرمپ اسی نشان کی وضاحت کررہے تھے۔انھوں نے الفاظ کے ذریعے امریکا کاسکہ بٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان تقریرایک دیو کی بنکار تھی۔ایسا دیوجو بونوں سے بدک رہا ہے۔ وہ بونوں کے سایوں سے خوف زدہ ہے جوپھیلتے جا رہے ہیں۔ان سایوں میں اسے آسیب دکھائی دے رہاہے۔یہ آنجہانی سوویت یونین کا بھوت ہے جو روس کی شکل میں نیا جنم لے چکاہے۔اس بھوت کے ساتھ ایک اور دیو کھڑا ہے۔یہ چین ہے جو ون بیلٹ ون روڈ کے نام سے ایک سڑک بناکر دنیا کے ساٹھ ملکوں کو ایک زنجیر سے باندھ رہا ہے۔یہ سڑک مشترکہ مفادات کی زنجیر ہے۔یہ سڑک جدیداشتراکیت کی فتح ہے۔یہ سڑک نئے ورلڈآرڈر کی علامت ہے۔یہ سڑک جدید تہذیب کی نئی پہچان ہے۔یہ دنیا کے بدلتے مستقبل کی تصویر ہے۔یہ سڑک بن گئی تو چین کی مصنوعات براہ راست یورپ اور افریقہ کی منڈیوں تک پہنچ سکیں گی۔ امریکا کی شکل میں موجودہ سرمایہ داری نظام کا دیومات کھاجائے گا۔اس دیو کی جگہ عالمی معاشی نظام پر چین تخت نشین ہوگا۔ چین کااشتراکی نظام سرمایہ داری کے ساتھ ہم آھنگ ہے۔دنیا اس جدید سرمایہ داری نظام کے آگے پلکیں بچھارہی ہے۔ عالمی معیشت پر امریکا کو اپنا راج خطرے میں دکھائی دے رہاہے۔ بیس پچیس بین الاقوامی شہر اس دیو کی مٹھی سے نکل گئے تو دنیا الٹا اس دیو پر ہنسنے لگے گی۔اس لیے یہ دیو طیش کھارہا ہے۔اس نے مٹھیاں بھینچ رکھی ہیں ۔اس کی آنکھیں شعلے اگل رہی ہیں اور نتھنوں سے دھواں خارج ہورہاہے۔وہ ستانے اور چڑانے والے شمالی کوریااوروینزویلاجیسے بونوں کو اپنے بھاری بھرکم بوٹوں تلے کچلناچاہتا ہے۔ وہ وینزویلا کی اپوزیشن جماعتوں کی کمرٹھونک رہا ہے۔وینزویلا میں مسلح باغی گروپوں پر ڈالر نچھاور کیے جارہے ہیں۔شمالی کوریا کے خلاف میڈیا پروپیگنڈہ مہم عروج پر ہے۔اس کے عوام کومایوسی کا احساس دلایاجا رہا ہے۔شمالی کوریا کے کھلنڈرے سربراہ کے خلاف بغاوت کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔شمالی کوریا نے ٹرمپ کی شعلہ فشانی کے جوا ب میں کہا ہے’’جو گرجتے ہیں ،وہ برستے نہیں‘‘۔

دیو نے پاکستان پر بھی نظریں گاڑھ رکھی ہیں۔وہ پاکستان کو لے پالک سمجھتا تھا لیکن لڑکا جوان ہوکر خود سری پر اتر آیا ہے۔تاریخ گواہ ہے،امریکا خود سروں کو کبھی معاف نہیں کرتا ۔بھارت اس معاملے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔چنانچہ بھارت کو تھپکیوں اور پاکستان کو دھمکیوں سے نواز نے کا فیصلہ ہوا ہے۔ پاک فوج کو ٹریپ کیا جائے گا۔ کشمیر کے مسئلے کو نظر انداز کردیا جائے گا۔کشمیریوں پر مظالم میں اضافہ ہوگا تاکہ حریت پسندوں کا خون کھولے،وہ عسکری کارروائیوں میں اضافہ کریں ،ہوسکتا ہے ، اس آپا دھاپی میں ممبئی حملوں جیسا ایک آدھ نیاواقعہ پیش آجائے ،یوں پاکستان پر کیچڑ اچھالنامزیدآسان ہوجائے گا،ثبوت فراہم کردیے تو چین بھی پاکستان کاہاتھ نہیں تھام سکے گا۔پاکستان کوسبق سکھانا ضروری ہے ۔ وہ چین کو سی پیک جیسی سہولت فراہم کررہا ہے۔سی پیک کے بعدون بیلٹ ون روڈ کی کامیابی یقینی ہوجائے گی۔

چین ،روس ،ترکی اورقازقستان وسط ایشاء کے قدرتی وسائل سے استفادے میں شریک ہورہے ہیں۔ترکی پاکستان کا قریبی حلیف ہے۔ وسط ایشیاء میں ترکی کی کامیابی پاکستان کے لیے امکانات کے نئے دروازے کھول دے گی۔ پاکستان امریکی امداد سے بے پروا ہوجائے گا۔ا س کی خود سری بڑھ جائے گی ۔پاکستان کو بدتمیزی کے نتائج سمجھانامشکل نہیں، مسئلہ چین کا ہے جو پاکستان کی حمایت میں پیش پیش ہے۔ امریکی دیو چین کو نیچا دکھاکرروسی بھوت کو سائی بیریا میں دھکیلناچاہتا ہے۔وسط ایشیاء میں قدم جمائے بغیر روس کو نکیل نہیں ڈالی جاسکتی لیکن وسط ایشیاء کے راستے میں مسلمانوں کا خون بکھرا ہوا ہے۔اس خون پر دیو کے قدم جم نہیں پا رہے۔یہ بے گناہوں کا لہو ہے۔زمین اس لہو کو ہضم نہیں کرتی۔اس لہوپر آج تک کسی کے قدم نہیں جمے۔ امریکی دیو افغانستان میں ٹھکانہ بنا چکا ہے مگر وسط ایشیاء تک رسائی کا خواب تاحال ادھورا ہے۔ڈیڑھ سو سال پہلے برطانیہ نے بھی وسط ایشیاء تک پہنچناچاہا تھا مگر وہ افغانوں کو زیر نہ کرسکا۔امریکا کے راستے میں چین کے بعد اب روس اورترکی بھی حائل ہوگئے ہیں ۔ترکی نے خلاف توقع ایران کو بھی اپنے ساتھ شریک کرلیا ہے۔اس لیے امریکا ناراض ہے ۔وہ ’’دہشت گرد‘‘ریاستوں کو سبق سکھانا چاہتا ہے۔

مسلمانوں کے پاس قوت نہیں تھی ،عالم اسلام متحد نہیں تھا ،سو امریکی دیو نے دو اسلامی ریاستیں برباد کرڈالیں۔لیبیا اور شام خانہ جنگی میں تباہ ہوگئے۔مسلمانوں کے مسئلے کو کسی عالمی لیڈر نے انسانی مسئلہ نہیں سمجھا۔لیکن جرمنی شمالی کوریا کے تنازع کو انسانی مسئلہ قرار دے رہا ہے۔

پرولتاری آمریت رکھنے والاشمالی کوریا اور بولیوارین اشتراکیت رکھنے والا وینزویلادونوں بہرحال سوشلسٹ ملک ہیں۔ان دونوں کی پشت پر دو عالمی طاقتیں کھڑی ہیں۔ لاطینی امریکا کے چھ ملکوں کے حکمرانوں کو جو مشترکہ اقتصادی بلاک بنانا چاہتے تھے، جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کینسر کا شکار کر کے مارنے باوجود،امریکاسوشلزم کا راستہ نہیں روک پا رہا۔وینزویلا کاہوگو شاویز موت کے بعد بھی لاطینی امریکا میں امریکی سرمایہ داریت کے خلاف مزاحمت کی علامت ہے۔ اشتراکی ایک نئے روپ میں ابھررہے ہیں ۔ سوشلزم نئی قوت حاصل کرچکاہے۔امریکا کے سامنے دو راستے ہیں۔وہ سوشلزم جمع سرمایہ داری کو قبول کرلے یا دوسروں کے لیے جگہ خالی کردے۔ریپبلکن ہاتھی کے لیے یہ دونوں صورتیں قابل قبول نہ ہوئیں تو نتیجہ نئی جنگوں کی صورت میں نکلے گا ۔سو دنیا آتش فشاں کے دھانے پر کھڑی ہے۔ نئے دور کی نئی جنگوں کے لیے میدان سج چکا ہے۔دیو آخر دیو ہے وہ جلد ہار نہیں مانے گا۔

تبصرہ کریں

Your email address will not be published. درکار خانے * سے نشان زد ہیں