شیطانی تکون۔
اس لہو کی ایک طویل تاریخ ہے۔یہ تاریخ مسلسل حادثوں کی زنجیر ہے۔یہ دو صدیوں کی الم ناک داستان ہے۔اس داستان کا ہر ورق خون سے رنگین ہے۔برما کے مسلمان بدھ بادشاہوں کے دورمیں بھی ستم رسیدہ تھے۔برما پر انگریز کاقبضہ ان کی قسمت نہ بدل سکا۔انیس سو اڑتالیس میں انگریزبرما سے چلے گئے۔ اقتدار بدھ اکثریت نے سنبھال لیا۔ انھوں نے اراکان کی آزادی چھین لی۔روہنگیا غلامی کی دلدل میں ڈوب گئے۔ ان کی قسمت پر اندھیرے مسلط ہوگئے۔ اسی سال دنیا کے جسم پر اسرائیل کاناسور پھوٹا۔جنوبی ایشیاء میں سب سے پہلے برمانے اسرائیل کو چوما۔برما کا وزیر اعظم اسرائیل کا دورہ کرنے والاپہلا حکمران تھا۔لگاوٹ اتنی بڑھی کہ اسرائیلی وزیر اعظم ڈیوڈبین گوریان نے برما میں دو ہفتے تک قیام کیا۔انیس سو ساٹھ کے عشرے میں برما کے اقتدار پر فوجی جنتاقابض ہوئی تو یہ دوستی مزیدگہری ہوگئی۔اسرائیل،برما کی گاڑھی چھننے لگی۔ایگری کلچر،کلچر،ایجوکیشن اورزندگی کے مختلف شعبے اسرائیل کی سرپرستی میں مستحکم ہوئے۔اسرائیل نے برماکے متعدد اداروں کوتربیت دی۔ برما کی معیشت،طب اور معاشرت میں اسرائیل کا جادوسر چڑھ کر بول رہا ہے۔
میانمار اور اسرائیل آپس میں کئی معاہدے کرچکے ہیں۔اسرائیل کااسلحہ،جنگی کشتیاں اورٹینک برما کی فوج استعمال کررہی ہے۔فلسطینی مسلمانوں پر کیے گئے تجربات اسرائیل سے برمامنتقل ہورہے ہیں۔اسرائیل،برما گٹھ جوڑمیں بھارت کا سانجھابھی ہے۔انڈیا کا ہندو قوم پرست لیڈرمودی میانمارحکومت کو تھپکیاں دے رہاہے۔وہ بدہسٹ قیادت کی رسوائی کم کرنا چاہتا ہے۔میانمار کی سفارتی حمایت روہنگیا کے قتل کے مترادف ہے لیکن بھارت کواس سے کیافرق پڑتا ہے؟وہ میانمار میں سازگار فضاچاہتا ہے۔اس نے میانمارمیں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ بھارت برما،کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کوایک سڑک سے جوڑرہا ہے۔یہ علاقے افغانستان کے بعدسب سے زیادہ منشیات پید اکرتے ہیں۔ایسٹ ایشین سلک روٹ نامی سڑک پاک،چین سی پیک منصوبے کا توڑہے۔ برما کا انتہا پسند”تھے وادا“بدہسٹ گروہ بھارت سے قریبی روابط رکھتا ہے۔یہ گروہ منشیات کی اسمگلنگ میں بھارتی قیادت کو محفوظ راستے فراہم کرسکتا ہے۔اسرائیل، بھارت اور میانمار تینوں قریبی حلیف ہیں۔تینوں ملک مسلم اقلیت کے حقوق پامال کررہے ہیں۔تینوں ملکوں کے حکمران نسل پرست اور مذہبی تعصب رکھتے ہیں۔تینوں ملکوں میں مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے۔ اسرائیل کے پاس فلسطین ہے۔بھارت کے پاس کشمیر ہے۔برما کے پاس اراکان ہے۔تینوں محکو م خطو ں کی تاریخ ملتی جلتی ہے۔تینوں حاکم قومیں بھی ایک جیسی عادات رکھتی ہیں۔
یہودیوں کا خیال ہے،ان سے بہتر انسانی نسل دنیا میں کوئی نہیں ہے،لہذادنیا کی قیادت انہی کافریضہ ہے۔ہندو برہمن کو اونچی ذات کا گھمنڈ ہے۔وہ دلتوں اور شودروں کو پاؤں کی خا ک بھی نہیں سمجھتا۔بھلامسلمان اورو ہ بھی کشمیری پھر کس کھیت کی مولی ہیں؟۔نسلی برتری کا زعم بدھ متعصب گروہ ”تھے وادا“کوبھی لاحق ہے۔ یہودیوں کی طرح یہ گروہ بھی اپنی مذہبی تعلیمات میں تحریف کر چکا ہے۔بدھا نے کہا تھا”جانوروں کو بھی انسان سمجھ کر انھیں تکلیف نہیں دینی چاہیے“۔”تھے وادا“کے جنونی سادھو”ویووراتھو“نے انسانوں کوہی جانور بنا دیا ہے۔روہنگیامسلمان،انسان ہی ہیں لیکن بدھ مسلک کے مطابق انھیں جانور وں کا درجہ بھی نہیں دیا جارہا۔مسلمانوں کے قاتل بدھ بھکشو دنیا داری کو گمراہی کہتے ہیں۔وہ ہمیشہ گنجے رہتے ہیں،کیوں کہ بالوں کی زیبائش اور آرائش دنیا کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ وہ بغیر سلے کپڑے پہنتے ہیں۔اس لیے کہ سلے ہوئے کپڑے دنیا داری کی نشانی ہیں۔دنیا داری سے گیان حاصل نہیں ہوتا۔بدھا کی شکتی نصیب نہیں ہوتی۔بدھا نے کہا تھا ”دل کی صفائی اور خلق خدا سے محبت میں کامیابی کا راز پوشیدہ ہے“۔ بدھ بھکشو ذراآگے بڑھ گئے ہیں۔ ان کے دل مخلوق خداکی محبت سے بھی صاف ہوچکے ہیں۔ وہ عام انسانوں سے خود کوالگ ظاہرکرتے ہیں۔وہ اپنے لیے کمائی کا کوئی دھندہ پسند نہیں کرتے۔وہ ”سنگھا“میں رہتے ہیں اوردیوتاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پوجا کرتے رہتے ہیں۔شام کے وقت وہ کشکول اٹھائے بازار میں خاموشی سے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔بدھا کے نام پر انھیں کچھ نہ کچھ ضرور مل جاتا ہے۔ برما کے”دنیا دار“ عوام کو احساس ہے کہ وہ بدھا کے راستے پر نہیں ہیں لیکن بدھا ان کا فخر ہے۔بدھا کا نام اور اس کا مجسمہ ہر جگہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ بدھا کو ناراض نہیں کر سکتے۔اس لیے وہ بدھا کے بھکشوؤں کو پیسے دے دیتے ہیں۔بالکل اسی طرح جیسے برہمن خود دنیا سے دور رہتے ہیں اور مندر اور دھرم کی سیوا میں لگے رہتے ہیں جبکہ دیوتاؤں کی خوش نودی کی خاطرغریب ہندو عوام ان کی جھولیوں میں نذرانے ڈالتے رہتے ہیں۔ کچھ”تحفے“برہمن اپنی مرضی سے حاصل کر لیتے ہیں۔
نذرانوں سے خزانے بھرنا یہودی ربیوں کی عادت بھی رہی ہے۔یہودی اور برہمن بلا کے کنجوس ہیں۔کنجوس تو بدھ بھکشو بھی ہیں جو گھریلو ذمہ داریوں سے آزاد رہنا چاہتے ہیں۔وہ شادی تک نہیں کرتے۔کیوں کہ یہ بھی دنیا داری ہے۔ دنیا سے ”دوری“ کے باوجودان کی ”پاک بازی“ کی داستانیں دنیا کے معروف اخباروجرائد کی زینت بن چکی ہیں۔ بچوں کے قتل سے فرعون شاید ناحق بدنام ہوا۔بدھ بھکشو ؤں کے اسکینڈل ”قتل“سے زیادہ شرم ناک ہیں۔ تھائی لینڈ،بھوٹان،چین،جاپان،حتی کہ برطانیہ اور جرمنی جیسے ممالک میں بھی بدھ بھکشوؤں نے چاند چڑھاکراپنے مذہب کا نام روشن کیا ہے۔ میانمار کے ”تھے وادا“ فرقے نے تو انتہا کر دی ہے۔ میانمار کے معاشرے پر مضبوط گرفت کے باعث برمن بھکشوؤں کے خفیہ راز عالمی میڈیا کے ہاتھ نہیں لگے لیکن مسلمانوں کے قتل اور عصمت دری کے واقعات نے ان کا فریبی چہرہ بھی دنیا کو دکھا ہی دیا ہے۔ یہودی ربیوں اور برہمن پجاریوں کی طرح بدھ منک یعنی بھکشوؤں کی دولت کے قصے بھی سامنے آچکے ہیں۔تھائی لینڈ کے ایک بدھ منک کے پاس ذاتی طیارہ ہے۔البتہ وہ سلے ہوئے کپڑے نہیں پہنتا۔ تحقیق کی جائے تو انکشاف ہوگا کہ یہودی پادریوں اوربرہمن پنڈتوں کی طرح بدھ بھکشو رہنمابھی کتنے دولت مند اور کتنے پاپی ہیں۔
تینوں اقوام کے سیاسی لیڈر بھی ان کے مذہبی رہنماؤں جیسے ہیں۔یہ تینوں ممالک برطانیہ سے آزادہوئے ہیں۔ یہ تینوں ہی تقریبا یکساں مدت سے اپنے اپنے”ایریے“ میں مسلمانوں کے ساتھ ایک جیسا کھیل کھیل رہے ہیں۔یہ کھیل مسلمانوں کے لہو سے کھیلا جا رہا ہے۔ان کی عصمتوں سے کھیلا جا رہا ہے۔مسلمانوں کو بے بسی،محتاجگی،لاچاری اور تنہائی کا احساس دلایا جارہا ہے۔مسلمانوں کے ردعمل کا مشاہدہ کیا جارہا ہے۔ اس پر قابو پانے کے نت نئے طریقے سیکھے جارہے ہیں۔فلسطین،کشمیر اور اراکان تینوں جگہ کھلاڑی الگ الگ ہیں لیکن کھیل میں مماثلت ہے۔تینوں ملکوں کی پراسرار شیطانی تکون نہ جانے کیا کچھ کھچڑی پکا چکی ہے؟ اس لیے جذبات سے زیادہ عقل کااستعمال ہوناچاہیے۔میڈیا کے اشاروں پر سونے اور جاگنے کی بجائے کچھ کام دماغ سے لینے کی ضرورت بھی ہے۔سوچنا چاہیے یہ شیطانی تکون کسی نئی قوت کے لیے راہ ہموار تو نہیں کررہی؟کیامکر وفریب کے دیوتا کوئی نیا جال بن کر قہقہے لگا رہے ہیں؟ یا وہ وقت آن پہنچا ہے جس کا وعدہ ہے؟ کیا میانمار تاریخ کے کسی فیصلہ کن موڑ پرہے؟ اراکان کی لہو رنگ داستان کا آخری باب کیا ہوگا اور روہنگیا کس انجام تک پہنچیں گے،شاید یہ سب کچھ جلد سامنے آنے والا ہے۔ کیوں کہ میڈیا حیرت انگیز طور پر جاگ اٹھاہے۔
اراکان میں تباہ شدہ بستیوں،جلتے گھروں،لٹے پٹے انسانوں کے درماندہ قافلوں،بھوکے ننگے بچوں اورآنسو بہاتی عورتوں کو دنیاکیمرے کی آنکھ سے دیکھ رہی ہے۔جابجا بکھرے کٹے پھٹے جسم،سوختہ لاشیں اور”بدھ گزیدہ“ بدن انسانیت پر نوحہ کناں ہیں۔شہید مساجد میں قرآن کریم کے بکھرے اوراق خالق کائنات کے حلم کی گواہی دے رہے ہیں۔اس کی بے نیازی کی تصویرمسلمانوں کا وہ بہتا لہو ہے جو سبزے کی چادرپر پھیلتا جا رہا ہے۔ یہ لہو گزشتہ دو سو سالوں میں منڈالے سے رنگون تک پھیل چکا ہے اور نصف صدی سے اراکان کی سر زمین پر بکھررہا ہے۔ہوسکتا ہے یہ لہو شیطانی تکون کاجادو توڑڈالے۔ہوسکتا ہے یہ لہو مسلمانوں کو ہوش میں لے آئے۔
