بچوں کو بچاؤ
باتیں :رشید احمد منیب
اس نے تیوری چڑھا کر کہا ’’بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی علماء کرام کیوں ہضم کرلیتے ہیں؟‘‘میں نے جواب دیا ’’کیچڑ میں پتھر مارنے سے کیا حاصل ہوگا؟برائی کا نام لوگے تو خودہی پر برائی آئے گی‘‘۔اس کا چہرہ سرخ ہوگیا ’’کہنے لگا،’’ حیرت ہے !آپ کے دل کو کوئی داغ نہیں لگتا؟ایک غریب شخص کاجگر کاٹ دیا جاتاہے،ایک ذہانت قتل کر دی جاتی ہے، ایک معصومیت کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے لیکن آپ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔‘‘میں نے کہا’’قبرکا حال مردہ ہی جانتا ہے، تمھیں یقین رکھناچاہیے کہ ایسی کوئی بھی خبر بہت سے لوگوں کی نیند اڑا دیتی ہے ۔ہمارے بچے اسی معاشرے میں جیتے ہیں ،ہم اپنے بچوں کو دونوں جہاں سے کھونا نہیں چاہتے‘‘وہ کہنے لگا ’’ میں نے آج تک کسی عالم کو اس مسئلے پر زبان کھولتے ،لوگوں کو جھنجوڑتے ،مظلوم کی داد رسی کے لیے عوام کا ہاتھ تھامتے نہیں دیکھا ۔پاکستان میں اوسطاہرماہ تین سوسے زائد بچے اسی دوزخ میں گررہے ہیں۔ ان کی مائیں کس کرب سے جیتی ہیں ،یہ کون سوچے گا؟ ‘‘میں نے محسوس کیا،نوجوان ضرورت سے زیادہ حساس ہے ،اسے اعتدال کی راہ سجھانا ہوگی ،ورنہ یہ بھی کسی کالعدم تنظیم میں شامل ہو جائے گا اور ایک دن کسی ’’سپر ہائی وے پولیس مقابلے‘‘ کو چار چاند لگا کرخاک کا پیوند بن جائے گا۔ میں نے کہا ’’تمھاری بات سولہ آنے درست ہے،لیکن دریا کوہاتھ سے نہیں روکا جا سکتا ،علماء تو بات ہی کر سکتے ہیں ، عوام توجہ نہ دیں تو علماء کیا کریں ؟محض کہنے سے کیا فرق پڑے گا؟‘‘ وہ بولا ’’ظلم کے خلاف آوازنہ اٹھانا بھی ظلم ہے۔سماجی مسائل زبان پرلانے سے علماء کی شان پرکوئی حرف نہیں آئے گا لیکن شایدعلماء کو سماجی مسائل کے حل سے کوئی دلچسپی نہیں ،گویا وہ سماج سے کوئی تعلق نہیں رکھتے‘‘ میں نے گزارش کی ’’ علماء کا موقف انہی سے جانیے ،ہاں !مجھے اتنا بتائیے کہ ہر ٹوکرا علماء کے سر پر کیوں رکھ دیا جاتاہے؟کیا معاشرہ خود کوئی زبان نہیں رکھتا؟‘‘وہ پھٹ پڑا ’’کون سا معاشرہ ؟آپ کس خیال میں ہیں؟جہاں بچیاں گھروں میں غیر محفوظ ہوں ،جبری زیادتی کے بعد بچے کو پتھروں سے کچل ڈالا جائے،پولیس قیدیوں کے ذریعے ڈاکے ڈلوائے اور نجس جانوروں کا گوشت حلال کے نام پر کھلایا جائے،اسے آپ معاشرہ نہ کہیں ،معاشرہ انسانوں سے وجود میں آتا ہے ،لیکن جنگل کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں ،یہاں وہ بھی نہیں،ماہرین لغت کو ہمارے لیے کوئی نیالفظ سوچناہوگا،مجھے ڈر ہے،’’بربریت‘‘ کی طرح کوئی لفظ ’’پاکستانیت‘‘نہ گھڑلیا جائے۔ذلت اور رسوائی کے اس گڑھے سے لوگوں کو علماء ہی بچا سکتے ہیں ،لیکن وہ اختلافات کے علاوہ کسی بات پر متفق نہیں ہوتے۔‘‘ میں نے کہا ’’تمھارے احساسات قابل قدرہیں ،لیکن تم دل پر بار مت لو ،علماء بہت کچھ کررہے ہیں،جو کام وہ نہیں کرسکتے ، تم کرلو!آخر معاشرے کی اصلاح میں کالج اور یونی ورسٹی والوں کا بھی کوئی کردار ہونا چاہیے‘‘اس کے ہونٹ زخم کی طرح پھیل گئے،بھرائی ہوئی آوازمیں بولا ’’اور کالج، یونی ورسٹی والوں کی اصلاح کون کرے گا؟اصلاح کا لفظ علماء نے دیا ہے ،سب سے زیادہ ذمہ داری بھی انہی کی بنتی ہے،کالج اور یونی ورسٹی والے تو مغرب کی تہذیب پرایمان لاچکے ہیں،اب وہ الحاد کا کلمہ پڑھنے جا رہے ہیں،جنسی آزادی کومعاشرتی حق سمجھا جارہا ہے، اعلی تعلیمی اداروں میں منشیات فیشن بن گئی ہیں، والدین بچوں کوپیسہ بنانے کی مشین میں بدلنا چاہتے ہیں ،مشینوں کادل نہیں ہوتا ،وہ سوچتی نہیں ہیں ،اس لیے جن کے پاس سوچنے صلاحیت ہے ،انھیں عمل کی طاقت بھی دکھانا ہوگی،وہ میدان میں نہیں اتریں گے تو بچے معصوم نہیں رہیں گے ،پاکستان ،ناپاکستان بن جائے گا‘‘۔
میں سوچتا رہا ،مسائل دن بدن بڑھ رہے ہیں،بند کیسے باندھا جائے؟قرآن کریم نے ایک اصول بیان کردیا ہے ،’’ظاہری اور داخلی گناہوں سے بچو‘‘ایسے گناہوں تک رسائی اب ہر ایک کے ہاتھ میں ہے ۔آزادمیڈیا نے مشکل گناہوں کو بھی آسان بنا دیا ہے،سوچ پر اس کے اثرات پڑتے ہیں، ہوش وحواس پردرندگی چھا جاتی ہے اور کسی معصوم پرکوئی قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔لیکن سارا کیا دھرا میڈیا کا نہیں ہے ۔یقین جانیے کہ خوراک بھی قہرڈھارہی ہے۔بچوں کے رویوں پرکی جانے والی ایک تحقیق کہتی ہے کہ’’ جنکس فوڈ‘‘ کھانے والے بچوں میں بے راہ روی کا عنصرپیدا ہو جاتا ہے۔چپس ،بسکٹ،برگروغیرہ جنکس فوڈ یعنی کچرا خوراک ہیں۔یہ انسانی مزاج کاکچرا کردیتے ہیں۔ایک غیر ملکی تحقیق کا انکشاف ہے کہ انسانی مزاج اور طبیعت پر فارمی مرغی کا گوشت خنزیر کے گوشت جیسے اثرات ڈالتا ہے۔ایسی ہی خوراک انسانیت سے گری ہوئی حرکتوں پر ابھارتی ہے۔روحانی اور جسمانی صحت کے ماہرین کا اتفاق ہے کہ کم کھاناچاہیے،اچھا کھانا چاہیے اور سوچ سمجھ کر کھانا چاہیے ۔ سوچ اور مزاج پرخوراک ماحول کی طرح اثرڈالتی ہے۔نشہ پب میں بیٹھنے سے نہیں ،شراب پینے سے چڑھتا ہے ۔ہم بچوں کو شیر کی آنکھ سے دیکھیں اور سونے کا نوالہ کھلائیں یا نہیں ،لیکن انھیں ’’ بھیڑیا یا بھیڑ‘‘بننے سے تو بچائیں۔وہ شکاریاشکاری تو نہ بنیں۔بچے جو دیکھیں گے،جیسا سنیں گے وہی سوچیں گے اور ویساہی بنیں گے۔ جو خوراک ان کے جسم کاحصہ بنے گی ،ان کی روح پر بھی اثر ڈالے گی ۔ فارمی مرغی کا دم آنکھوں میں ہوتا ہے ۔یہ زندگی کے چیلنجوں سے نبرد آزماانسان کے شایان شان خوراک نہیں ۔ کھانے والے کا مزاج بھی فارمی مرغی جیساہوجائے گا ۔ پاکستان کو پاک رکھنے کے لیے ہمیں اپنے ذہن اور معدے دونوں کو پاکیزہ رکھنا ہوگا ۔پاکیزہ سوچ اور پاکیزہ خوراک لازم و ملزوم ہیں۔ایک شے ناپاک ہو گی تو دوسری خود بخودناپاک ہوجائے گی۔خدا کے لیے اپنے بچوں کا خیال رکھیں ۔انھیں حلال اور پاکیزہ خوراک ہی دیں تاکہ وہ اچھے انسان بن سکیں۔ان کی عز ت نفس کا خیال رکھیں تاکہ ان میں حقیقی اعتماد پیدا ہوسکے اور وہ خود اپنی صحیح یا غلط خواہش میں تمیز کر سکیں۔جو والدین بچوں کی بے جاضد کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں ، انھیں ان کی خواہش کے سپرد کردیتے ہیں،وہ اپنے بچوں کو گناہ یا جرم کے راستے پر ڈال دیتے ہیں۔ایسے معاشرے میں جہاں ظالم اور سفاک ہوس پرست درندے انسانوں کے روپ میں گھروں،گلی محلوں،ورکشاپوں ،درسگاہوں حتی کہ مذہبی اداروں میں بھی موجود ہوں ،اپنے بچوں کی ذہنی اور جسمانی تربیت پر توجہ نہ دینا انھیں خطرے میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔بچوں کو خوداپنی حفاظت کرنا سکھاؤ!معصوموں کی جانوں اورعصمتوں کو بچاؤ،پاکستان کو
پاکستان بناؤ!
