مجرم اور معلم

مجرم اور معلم :رشید احمد منیب

وہ ایک جرائم پیشہ گروہ کا کارندہ تھا ۔اس کا گروپ گینگ وار میں ملوث تھا ۔ اس نوجوان کی گہری سیاہ لیکن اداس آنکھوں میں کسی اجڑے ہوئے مندر جیسی ویرانی کا ڈیرہ تھا ۔یہ ویرانی ان بہت سے نوجوانوں کی آنکھوں میں موجود ہوتی ہے جو کوئی راہ نہ پاکر جرائم کی دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں اور اپنی قسمت اندھیروں کے سپرد کردیتے ہیں۔پھانسی ،عمر قید یا قتل سے پہلے تک ان کے بھرے پیٹ سے قہقہے ابلتے رہتے ہیں لیکن ان کی آنکھیں اس ہنسی کی گواہی نہیں دیتیں۔آنکھوں کو فطرت نے دل کا ترجمان بنایا ہے ۔پیٹ کا نہیں۔یہ فطرت کا کوئی راز ہے کہ مجرم کا ضمیربے چین رہتا ہے ۔دل کی بے چینی ویران آنکھوں سے ٹپکتی رہتی ہے ۔ہاں !جب ضمیر کی موت واقع ہوجاتی ہے تو مجرم کے دل میں بھی برف سی بھر جاتی ہے ۔دل میں جذبوں کی حرارت ختم ہوجاتی ہے۔وہ پتھر بن جاتا ہے ۔دل مردہ ہوجائے تو آنکھوں کا رنگ مزید بگڑ جاتا ہے۔ویرانی وحشت اور سفاکی کا روپ دھار لیتی ہے ۔مجرم غیر انسانی رویوں کا مجموعہ بن جاتا ہے ۔

میں جاننا چاہتا تھا کہ زندگی کے متعلق ایک جرائم پیشہ نوجوان کاتصور کیاہے ؟ یہ ایک مشکل کام تھا ۔میں ایک ایسی گلی میں کھڑا تھا جو بارہا انسانی خون سے رنگی جاچکی تھی ۔یہاں سینکڑوں لوگوں کو لوٹا جاچکا تھا ۔یہ گروہ کاایک مخصوص سپاٹ تھا جہاں سے علاقے میں داخل ہونے والے ہر فرد پر نگاہ رکھی جاتی تھی ۔گینگ وار جاری ہوتو گروہ کاکوئی بھی فرد کسی بھی لمحے غداری کرسکتا ہے ۔غداری کی سزا صرف موت ہوتی ہے لیکن غدار گروہ کو خاصانقصان پہنچا سکتاہے ۔اس لیے گینگ کا سرغنہ ہر لمحے گروہ کی سرگرمیوں کے متعلق باخبر رہنا چاہتا ہے ۔میرے سامنے موجود نوجوان مقامی گینگ کا اہم کارندہ تھا ۔وہ’’ باس‘‘ کا خاص مخبر تھا ۔وہ مخالف گینگ کے غنڈوں پر نظر رکھنے کا خطرناک کام سرانجام دیتا تھا۔علاقے میں رینجرز یا پولیس کی خلافِ معمول حرکت کی نگرانی اور اطلاع بھی اسی کی ذمہ داری تھی ۔وہ علاقے میں ہونے والی مختلف النوع باتوں سے بھی آگاہ رہتا تھا تاکہ لوگوں کے راز معلوم کیے جاسکیں ۔کون کتنا شریف ہے اور کتنا کمینہ ؟تاکہ اسی حساب سے اس کے ساتھ معاملہ کیا جاسکے ۔کوئی غیر معمولی بات وقوع پذیر ہوتو فورا گروہ کے علم میں آسکے ۔اس کی تمام سرگرمیاں سماج کے مخالف تھیں۔وہ علم نہیں جرم کے ساتھ وابستہ تھا۔اس لیے اس کے ساتھ بات چیت واقعی مشکل تھی ۔ سب سے بڑی رکاوٹ اس نوجوان کے متعلق میری سوچ تھی ۔ انسان جسے مجرم تصور کرتا ہے ،اس سے دورہی رہنا چاہتاہے۔

میرا تعلق علم اور ادب کے ساتھ تھا۔میں لکھتا تھا اور بچوں کو پڑھاتا تھا ۔ ایک مجرم کے ساتھ میرا کوئی جوڑ نہیں بنتا تھا ۔مجھے بات چیت کے لیے کوئی عنوان درکار تھا ۔میں نے سوچاِ ،صحافی کی بجائے ایک استاذ کی حیثیت سے بات کی جائے تو شاید کوئی نتیجہ نکل آئے۔میں نے بچوں کو قرآنِ کریم پڑھانے والے معلم کی حیثیت سے فائدہ اٹھایااور اس نوجوان کی جانب مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھادیا ۔مستقبل کے ایک ممکنہ خطرناک مجرم نے حیرت سے اپنی جانب مصافحے کے لیے اٹھا ہاتھ دیکھا ۔اس نے ایک ترچھی نگاہ اپنے ساتھیوں پر ڈالی جو اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر مستعد کھڑے تھے ۔’’ آپ سے کچھ پوچھناہے ۔کیا آپ چند منٹ مجھے دے سکتے ہیں ؟‘‘یقیناًاسے میری آواز بری نہیں لگی تھی ۔نوجوان کی نگاہوں نے ایک مرتبہ پھر ماحول کا جائزہ لیا ۔کہیں کوئی خطرہ نہیں تھا ۔اس کی چھٹی حس نے کوئی الارم نہیں بجایا۔سلام ،مصافحے اور نرم گرم لہجے نے اس کے خشک پتھر جیسے دل میں ہلکی سے تراوٹ پیدا کردی تھی ۔آنکھیں سچ بول رہی تھیں ۔ضمیر میں کچھ رمق باقی تھی ۔دل میں کچھ حرارت موجود تھی۔ اس نوجوان نے ابھی تک گینگ کے لیے کوئی قتل نہیں کیا تھا ۔

معاشرے کے دو قطعی مختلف کرداروں نے ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی ۔دونوں چوکنا تھے ۔دونوں ایک دوسرے کے خیالات سے ناواقف تھے ۔لیکن کوئی نامعلوم رشتہ دونوں کے درمیان ضرور تھا جس کی وجہ سے بات آگے بڑھ رہی تھی ۔تعارف کا رسمی مرحلہ ختم ہواتو نوجوان نے پوچھا۔’’ہاں ،اب پوچھو ،کیا بات ہے ؟‘‘لہجے میں درشتی رچ بس چکی تھی ۔مجھے اس لہجے کو نظر انداز ہی کرنا تھا ۔’’یار !یہ بتاؤ ،تم نے کچھ پڑھا بھی ہے یا بس کام کاج ہی کرتے رہے ۔‘‘ اس کے لبوں پر ایک طنزیہ سی مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔’’میں پڑھ بھی جاتا تو کیا کرلیتا ؟باپ نے بہت بولاتھاکہ پڑھ لو مگر اس میں دل ہی نئیں لگتا تھا ۔نہ کچھ سمجھ میں آتا تھا ۔اس لیے پانچویں کے بعد اسکول چھوڑ دیا۔‘‘ وہ کوئی نئی کہانی نہیں سنا رہا تھا ۔ہر محلے اور گلی میں ایسی کہانیاں بکھری ہوئی ہیں ۔میں نے پوچھا ۔’’قرآنِ کریم پڑھا یا نہیں ؟‘‘اس نے ایک شکوہ بھری نگاہ مجھ پر ڈالی اور بولا ’’مسجد بھی گیا تھا ۔قرآن پاک پڑھنے کا شوق بھی تھا ۔باپ بولتا تھا ،قرآن پاک پڑھ لے ،میں مرگیا تو مجھے پڑھ پڑھ کر بخشش کرنا ،باپ مرگیا ،مگر میں اسے قرآن پاک پڑھ کر بخشش نئیں کرتا ۔اس لیے کہ قرآن پڑھا ہی نئیں ۔‘‘

’’لیکن کیوں ؟ تم مسجد تو گئے تھے ۔پھر پڑھا کیوں نہیں ؟‘‘میں نے سوال کیا ۔’’میں مسجد اس لیے گیا تھا کہ وہاں قرآن پاک پڑھ لوں گا۔چلو باپ کسی طرح تو خوش ہوگا ۔پر مجھے معلوم نئیں تھا ،مسجد میں اتنامار لگتا ہے ۔قاری صاحب بہت ظالم تھا ۔وہ میرے پہ شک کرتا تھا ۔وہ مجھے غریب اور برا سمجھتا تھا ۔وہ مجھے طعنہ مارتا تھا ۔اس لیے مسجد سے بھی بھاگ گیا ۔‘‘یہ کہہ کر اس نے میری طرف دیکھا ۔اس کی ویران آنکھوں میں کوئی تأثر نہیں تھا ۔چہرے کی طرح وہ بھی سپاٹ تھیں ۔لیکن زبانِ حال سے وہ کہہ رہا تھا ’’میں مجرم ہوں تو تم لوگ بری الذمہ ہو کیا ؟‘‘میں اسے معاشرے کا مجرم سمجھ رہا تھا لیکن آئینے میں خود میراہی عکس تھا ۔میں زندگی کے متعلق جرائم میں ملوث ایک فرد کے تصور سے آگاہ نہ ہوسکا۔تصور کی جگہ اس نے مجھے حقیقت بتا دی ۔ بات چیت مکمل ہوچکی تھی ۔ وہ مجرم قرآن کریم کی دولت سے محروم رہنے پر ناخوش تھا لیکن شرم ساری میرے حصے میں آئی تھی ۔میں سلام کرکے اپنے راستے پر چل پڑا ۔

بہت سے بچے پڑھنا چاہتے ہیں لیکن وہ بہت سے وجوہات کی بنا پر نہیں پڑھ پاتے ۔فزیکل مسائل ،غذائی کمی ،ناقص خوراک ،حوصلہ افزائی کا نہ ہونا اور گھریلو پریشانیاں بچوں کو تعلیم سے دور کردیتی ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ دولت وہ اس شخص سے حاصل نہیں کرپاتے جو تعلیم و تربیت سے زیادہ انھیں پیٹنے ،کوٹنے اور ڈانٹنے میں دل چسپی رکھتا ہو ۔سوال یہ ہے کہ ان بچوں کو تعلیم سے دور کرنے کا وبال ہم اپنے ہی سر کیوں لے لیتے ہیں ؟قرآنِ کریم کی تعلیم کے ساتھ جبر و تشدد کا سلسلہ آخرکب تک جاری رہے گا؟جو قرآن کریم پڑھاتے ہیں،ان میں سے بہت سے لوگوں کے رویے اتنے بے لچک ،کڑے ،سخت اور متشدد کیوں ہوتے ہیں کہ بچے عمر بھر کے لیے قرآنِ کریم سے دور ہوجاتے ہیں ؟کیا درس گاہ میں بیٹھے بچے مجرم ہوتے ہیں ؟کیا کلاس بھی کوئی گینگ یا گروہ ہے جسے چلانے کے لیے مجرمانہ نوعیت کی سوچ یا رویہ اختیار کرنا ضروری ہو ؟ایسے ہی رویے کے باعث لاکھوں محروم بچوں کے مجرم ہم ہی سمجھے جاتے ہیں ،خواہ ہم اسے مانیں یا نہ مانیں۔کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم اپنے برتاؤپر خود ہی غور کرلیں ؟اس سے پہلے کہ یہ زحمت کسی اور کو اٹھا نا پڑجائے ۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *