نئی قیادت

نئی قیادت

باتیں:رشید احمد منیب

ان کی کشادہ آنکھوں میں ذہانت کی چمک تھی۔ دھیما لب ولہجہ،نپے تلے الفاظ ،طبیعت میں سادگی کے ساتھ ایک مخصوص ٹھہراؤ۔وہ برطانیہ سے واردہوئے تھے اورپاکستانی معاشرے کا غم کھا رہے تھے۔انھوں نے مدارس سے امید باندھ رکھی تھی لیکن اہل مدارس کا رویہ ان کی سمجھ سے بالا تر تھا۔میں نے عرض کیا ،کیا وجہ ہے ؟ پاکستانی مدارس کی بات زبان پرلاتے ہوئے آپ بھوئیں اچکا رہے ہیں؟

وہ بولے ’’مدرسہ مسلم معاشرے کی شناخت ہے۔ مسلم برادری جہاں بھی ہوگی وہاں مدرسہ ضرور ہوگا ۔برطانیہ میں بھی مدرسے زندہ ہیں۔امریکا ،انڈیا ،فرانس ،جرمنی ، ساؤتھ افریقہ،آسٹریلیا اورروس تمام ممالک میں مدرسے سانس لے رہے ہیں ۔ہرمدرسہ مسلمانوں کی بنیادی تعلیم وتربیت کاگہوارہ ہے لیکن پاکستان کا مدرسہ ایک منفرد پہچان بھی رکھتا ہے ۔میں دم بخود ہوں، اہل مدارس اس موقع سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے؟‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’یہ پہچان کیا ہے؟‘‘۔ وہ کہنے لگے ’’پاکستان کے مدارس آزاد ہیں۔وہ اپنی راہ خود چلتے ہیں۔وہ خود مختار ہیں۔یہ نعمت مدرسے کو دنیا میں کسی جگہ نصیب نہیں۔پاکستان کے مدارس کو اس نعمت کا اندازہ نہیں ہے۔وہ اس امتیازی حیثیت کوکام میں نہیں لا رہے ۔اس کے باوجود معاشرے میں ان کی بات ہے،اسی بات پرمیں حیران ہوں‘‘۔میں نے کہا ’’ نائن الیون کے بعد حالات واقعی بدل گئے ۔غیر مسلم ممالک میں مدارس پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے ۔ دہشت گردی کے واقعات کو مدارس کے ساتھ جوڑدیا گیا ہے،غیر مسلم معاشروں میں مدارس سانس بھی سوچ کر لیتے ہیں ، پاکستان کے مدارس نسبتا آزاد ہیں،لیکن اس میں غیر معمولی بات کیا ہے؟مدارس توایک جیسے ہی ہیں !‘‘۔ وہ بولے’’کیا ایک آزاد قوم اور آزادریاست کے تعلیمی ادارے صرف بنیادی تعلیم وتربیت ہی فراہم کرتے ہیں؟ایسا نہیں ہے بلکہ وہ مستقبل کی قیادت بھی تیار کرتے ہیں۔پاکستان کے مدارس کو اس ذمہ داری کا کوئی احساس ہے یا نہیں ؟‘‘۔میں نے سوال کیا ’’ کیا مدارس کو سیاسی قیادت تیار کرنی چاہیے؟‘‘ وہ چند ساعت خاموش رہے، مجھے محسوس ہوا ، وہ کسی داخلی جذبے پر قابو پاکر اظہارخیال کے لیے مناسب الفاظ چن رہے ہیں، وہ بولے’’ ملک یا معاشرے کو زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی درکا ر ہوتی ہے۔تعلیمی ادارے قومی زندگی کے تمام شعبوں کے لیے افرادکار تیار کرتے ہیں،مدارس کا کام بھی قیادت کی تیاری ہے ، لیکن وہ اس طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دے رہے ،ان کا معاشرے کے ساتھ تعلق دن بدن کمزور ہوتا چلا جارہا ہے،وہ محض چند روایات کے ذریعے معاشرے کے ساتھ منسلک ہیں ،جس دن معاشرے کو ان روایات کی ضرورت نہ رہی یا مدارس کا متبادل میسر آگیا ،معاشرے میں مدارس کا یہ واجبی کردار مزید مبہم ہوجائے گا‘‘۔

میں نے کہا ’’دینی مدارس پاکستان کی سب سے بڑی این جی اوز ہیں ،ان میں تیس لاکھ سے زائد طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں،یہاں لاکھوں کی تعداد میں حفاظ اور علماء تیار ہورہے ہیں،ان میں بلا مبالغہ یومیہ لاکھوں قرآن کریم ختم کیے جاتے ہیں،قرآن کریم کی تلاوت پورے ملک پر اپنے ثمرات ڈالتی ہے،اس تلاوت کا اجر وثواب ان تمام لوگوں کو ملتا ہوگا،جنھوں نے یہ ملک بنایا،اس کے لیے قربانیاں دیں اور جو اس کے محافظ اور خادم ہیں توآپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ معاشرے سے مدارس کا تعلق کمزورہوتا جارہا ہے؟آخر یہ بچے معاشرے ہی سے مدارس کو مل رہے ہیں‘‘۔وہ بولے’’آپ کی یہ تقریر ہی میری دلیل ہے،تعلیمی ادارے کامعاشرے کے ساتھ یک طرفہ تعلق نہیں ہوتاکہ معاشرہ اسے کیا دے رہا ہے بلکہ یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ ادارہ معاشرے کو کیا فراہم کررہا ہے۔‘‘

میں نے کہا ’’ مدارس معاشرے میں دین کے قلعے ہیں،پاکستان میں دین کی حفاطت کاکام مدارس سر انجام دے رہے ہیں ۔اس سے بڑی معاشرے کی اور کیا خدمت ہو سکتی ہے؟‘‘ وہ بولے’’زیادہ درست بات یہ ہے کہ پاکستان اور اس کے مدارس دین کی وجہ سے قائم اور محفوظ ہیں ۔ مدارس دین کی نظری تشریح کا طریقہ تو سکھا دیتے ہیں لیکن کردارسے اس کی عملی وضاحت نہیں سکھاتے۔ معاشرے کے عام لوگوں کے سامنے عملی طور پر کیا رویہ اختیار کرنا ہے؟اس کی مشق بالکل نہیں ہوتی‘‘۔

میں نے عرض کیا ،’’براہ کرم آپ مثال ذریعے کے ذریعے سمجھائیں ، میںآپ کی باتوں کی گہرائی میں نہیں اتر پارہا‘‘۔وہ بولے’’ آپ ایک چھوٹی سی مثال کے ذریعے میری بات سمجھنے کی کوشش کریں۔ایمان کے ستتر شعبے ہیں ،پہلا شعبہ عقیدہ توحید ہے ، �آخری شعبہ راستوں سے تکلیف دہ اشیاء کو دور کرنا ہے۔ پہلے شعبے پر مدارس بہت توجہ دیتے ہیں ۔توحید سے متعلق کلامی گفتگو بھی ہوتی ہے اورفروعی نزاعی مسائل بھی زیر بحث آتے ہیں ۔ عقیدۂ توحید کواہمیت کے ساتھ پڑھایا جاتاہے ،لیکن ایمان کے آخری شعبے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔اس کی کیا وجہ ہے ؟ کہیں ایساتونہیں کہ یہ ایک عملی بات ہے،اس میں منطق کا کوئی لطف ہے نہ اختلاف اقوال کے چٹخارے ہیں، اسی وجہ سے اس حکم پر عمل نہیں ہوتا۔ طلبہ ایمان کے آخری شعبے پر توجہ نہیں دیتے ۔بالکل اسی طرح جیسے وہ سلام میں کنجوس دکھائی دیتے ہیں‘‘۔

میں پوچھا ’’آپ کے خیال میں اس کا حل کیا ہے؟‘‘ وہ کہنے لگے’’ اس کا حل نمازکے سبق میں پوشیدہ ہے۔ جو نماز کی امامت کرتے ہیں ،انھیں معاشرے کی امامت بھی کرنی چاہیے۔ جیسے نماز عملی طور پر سکھائی جاتی ہے،اسی طرح معاشرتی احکام کو عملی شکل میں سکھایا جائے،مثلا مہینے میں ایک مرتبہ مدارس کے طلبہ سے محلے یا علاقے کی صفائی حدیث مبارکہ پر عمل کے لیے کروائی جائے۔ کبھی کسی اسپتال میں جاکر مریضوں کی مزاج پرسی کرلی جائے ۔چھوٹے چھوٹے عملی کاموں کو مدرسے کی تعلیم کاحصہ بنایا جائے،اس قسم کے کاموں سے مدارس اور معاشرے میں موجود اجنبیت کم ہوگی ، دین کی معاشرتی تعلیمات پر عمل کا سبق ملے گا،دین کی بھولی ہوئی معاشرتی تعلیمات نئے سرے سے زندہ ہوں گی تو معاشرے میں نئی زندگی نمودار ہونے لگے گی‘‘۔

میں نے کہا ’’دراصل پورے معاشرے میں کمزوری ہے ،اسی کے اثرات طلبہ میں بھی دکھائی دیتے ہیں‘‘۔وہ کہنے لگے’’آپ الٹ کہہ رہے ہیں ،عوام مدارس یا کسی بھی تعلیمی ادارے کے رہنما نہیں ہوتے بلکہ اعلی تعلیمی اداروں سے نکلنے والے افراد معاشرے کے رہنماہوتے ہیں۔مدارس چند روایات پر عمل کا نام تربیت سمجھیں گے تو ان کے طلبہ بیرونی اثرات ہی قبول کریں گے۔مدارس جب انھیں اس انداز میں تربیت دیں گے کہ وہ اپنے اثرات دوسروں پر قائم کر سکیں تو اس سے حقیقی تبدیلی آئے گی ۔وہ زندگی کے جس شعبے میں جائیں گے ،وہاں اپنے کردار سے تبدیلی لے کر آئیں گے۔یہی معاشرے کی رہنمائی کا صحیح طریقہ ہے،سیاسی قیادت ضروری نہیں ،مدارس سماجی اور معاشرتی قیادت بھی سرانجام دے سکتے ہیں‘‘۔ظاہر ہے ،مجھے ان کی باتوں سے اتفاق ہی کرنا تھا ۔آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ؟براہ کرم مجھے ضرور آگاہ فرمائیں۔

تبصرہ کریں

Your email address will not be published. درکار خانے * سے نشان زد ہیں