دو طوفان،دو سبق
باتیں:رشید احمد منیب
سولہ برس قبل،امریکاکے عوام نے ایک آتشیں طوفان دیکھا تھا۔یہ انسانی غیظ وغضب کی ایک جھلک تھی۔یہ سازشوں کی آندھی تھی۔ صدمے سے گنگ امریکی عوام حیرت اور بے بسی سے ورلڈٹریڈسینٹر کو تباہ ہوتے دیکھ رہے تھے۔امریکی عوام صدمے سے بے حال تھے۔ امریکی عوام کی انا کو ٹھیس پہنچی تھی۔وہ نامعلوم دشمن سے انتقام لینا چاہتے تھے۔نائن الیون کے حملوں نے تاریخ کی سمت بدل دی۔دنیا میں کشت و خون کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔مسلم ممالک ترقی معکوس کی سمت دھکیل دیے گئے۔امریکا اتحادی ممالک کے ساتھ عالم اسلام پر ٹوٹ پڑا۔دو اسلامی سلطنتیں عبرت کا نشان بن گئیں۔نائن الیون کے آتشیں طوفان سے اٹھنے والے بگولے سولہ برس بعد بھی عالم اسلام میں محو گردش ہیں۔امریکا کی آتش انتقام ابھی تک ٹھنڈی نہیں ہوئی۔موت کا رقص ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
سولہ برس بعد، امریکی عوام ایک نئے طوفان سے آنکھیں چار کررہے ہیں۔ غضب ناک سمندر امریکی ساحلوں پر چڑھ دوڑا ہے۔ پہلے ہاروے نام کا طوفان آیا جس نے ٹیکساس کو جھیل میں بدل ڈالا۔سڑکیں نہریں بن گئیں جن پر کشتیاں چل رہی تھیں۔ کاریں پانی بہا کر لے گیا تھا۔طوفانی ہواؤں نے مکانات کا حلیہ بگاڑدیا۔شہروں کا نقشہ تبدیل ہوگیا۔ حیران اور پریشان معمر شہریوں نے گزشتہ تیس سالوں میں ایسا طوفان نہیں دیکھا تھا۔امریکا کے عوام ہاروے کے جھٹکے سے ابھی سنبھلے بھی نہ تھے کہ سمندرنے ایک مرتبہ پھراپنی قوت کا مظاہرہ کیا۔یہ”ہیری کن ارما“ ہے جوشاید آنے والی امریکی تاریخ میں نائن الیون ہی کی طرح یاد رکھا جائے گا۔یہ ایک نیا ”نائن الیون“ ہے۔ فلوریڈا کے عوام طوفان کی شدت کو دیکھ کر حیرت اور خوف سے چیخ پڑے ہیں۔دو سومیل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں نے کیربیئن جزائر کو ”نوگو ایریا“ بنادیا۔ان آندھیوں نے پھر فلوریڈااورجارجیا کاچراغ گل کردیا۔ فلوریڈاسے پینسٹھ لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔فلوریڈا کے میٹرو پولیشن شہر میامی کاحسن خاک میں مل چکا ہے۔ گھر اور کاروبار پانی میں ڈوب چکے ہیں۔فلوریڈا میں پچیس فیصد گھر مکمل تباہ ہوئے ہیں۔ پینسٹھ فیصد گھر متاثر ہیں۔فلوریڈا،جارجیا،جنوبی کیرولینا، شمالی کیرولینا اور الیبامہ میں چھیاسٹھ لاکھ سے زائد گھروں کی بجلی منقطع ہوچکی ہے۔بجلی کی مکمل بحالی میں دس دن لگ جائیں گے۔مالی نقصانات حد سے متجاو ز ہیں۔ دوسوبلین ڈالرنقصان کا ابتدائی اندازہ لگایا گیاہے۔”ارما“ کو”امریکی تاریخ کا مہنگا ترین طوفان“ کاخطاب مل چکا ہے۔سوشل میڈیا پرلوگوں نے اس طوفان کا نام ارما رکھنے پر اعتراض کیا ہے کیوں کہ اس نام میں نسوانیت جھلکتی ہے۔لوگوں کا خیال ہے،اس خطرناک اور مہنگے ترین طوفان کا نام ”جارج واکربش“ ہونا چاہیے تھا۔ اسی شخص نے امریکا کو تاریخ کی مہنگی ترین جنگوں میں دھکیلا تھا۔اتفاق کی بات ہے کہ سولہ برس قبل وہ دن بھی آج ہی کی تاریخوں میں آئے تھے۔
سولہ برس قبل،نائن الیون کے واقعات کے پس پشت کیا ڈرامہ کھیلا گیا؟ شاید دنیا یہ راز کبھی نہ جان سکے گی۔کہا جاتاہے، کچھ جذباتی مسلمان موساد کے ٹریپ میں آگئے تھے۔ ان کا خیال ہے،دنیا کی بڑی طاقتوں نے القاعدہ سے بہت سے فوائداٹھائے۔ اب داعش سے مزید مقاصد حاصل کیے جارہے ہیں۔جیسا کہ لیبیا میں گرفتار ہونے والا داعش کا ایک اہم ایجنٹ یہودی نکلاہے۔وہ ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ سولہ برس قبل القاعدہ کے جذباتی نوجوانوں کو استعمال کر کے جس کھیل کا آغاز کیا گیا تھا اب داعش کے ذریعے اسے مزید سنسنی خیز اورپرلطف بنایا جارہاہے۔ گویایہ ایک مووی سیریز ہے جس کی ہر قسط دوسری سے بڑھ کر خوف ناک ہے۔مثلامسلم ممالک کو خانہ جنگی،بدامنی اور تشدد میں مبتلا کرنا۔ ان کی اقتصادی قوت کو کمزور کر کے ان کے اقتدار اعلی پر غلبہ پانا۔ عالمی سطح پر اسلام کو بدنام کر کے اس کی مقبولیت کا راستہ روکنا۔سرمایہ دارانہ نظام کو مزید مستحکم کرنا۔سرمایہ دارانہ نظام اب سوشل ازم کے اشتراک کے ساتھ بہت جلد ایک نئی شکل میں سامنے آنے والا ہے۔اس کے لیے زمین ہموار ہوچکی ہے۔ عالمی ساہو کاروں کی حکمت عملی کابنیادی نکتہ مسلمانوں کو ہر حال میں باہمی لڑائیوں یا غیر اہم جنگوں میں دھکیلنا ہے۔بہت کم مسلمان جانتے ہیں کہ ہر جنگ لڑنے والی نہیں ہوتی۔ سولہ برس قبل نائن الیون کے آتشیں طوفان سے اٹھنے والے بگولے مسلمانوں کو سبق دے رہے ہیں کہ وہ جدو جہد کا میدان سوچ سمجھ کر اختیار کریں۔
سولہ برس بعد،امریکا میں آنے والاآبی طوفان امریکی عوام کے لیے قدرت کا پیغام ہے۔امریکا لاکھ طاقت ور اور مضبوط سہی،لیکن اس کی ترقی قدرت کا ایک پنچ تک نہیں سہہ سکتی۔”ہیریکن ارما“کا مشاہدہ کرنے والاایک تجزیہ کار اس بات پر حیران تھا کہ ہیریکن ارما بہت سے مقامات کو اس طرح چھوڑ کر آگے بڑھا ہے گویا اس طوفان کی آنکھیں تھیں جو دیکھ رہی تھیں کہ کس سمت آگے بڑھنا ہے اور کس طرف نہیں جانا۔کاش یہی بات امریکی عوام سمجھ لیں۔امریکا کی نئی نسل تو عیسائیت کی تعلیمات بھی ترک کرکے الحاد کی طرف جا رہی ہے۔نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کائنات کے خالق ہی کاانکار کررہے ہیں۔امریکن سوشل میڈیا پر ہونے والی گفتگو سے اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ امریکن نوجوان تیزی سے الحاد ختیار کررہے ہیں۔ اس نئی نسل کو لبرل ازم اور نسلی امتیاز کی جنگ میں دھکیلا جارہا ہے۔مسلمانوں کے بہت کم ایسے ادارے ہیں جو نئی نسل کو اسلام کی دعوت مؤثر انداز میں دے سکیں۔ہم ایسے افراد ہی تیار نہیں کرپا رہے جو نئی نسل کو اسلام کی دعوت پہنچانے کا طریقہ اور سلیقہ رکھتے ہوں۔ہم باہمی تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہمیں اس خطرے کا قطعی ادراک نہیں ہے کہ مسلم اقلیت خواہ کسی خطے میں رہتی ہو، وہ بدلتے حالات میں اکثریت کے جبر کا شکار ہوسکتی ہے۔ دنیا میں نسلی امتیاز کا یکا یک غلغلہ محض اتفاق نہیں ہے۔یہ ایک نئے کھیل آغاز ہے۔
سولہ برس قبل اور سولہ برس بعد کے حالات میں ایک ڈرامائی تسلسل موجودہے۔ایک طاقت ور قوم ایک کمزور گروہ کے چند افراد کی حماقت،نادانی یا غلطی کی سزا ان کی پوری قوم کو دے سکتی ہے لیکن قدرت کا ایک ہی تھپڑ اسے اوقات یاد دلا دیتاہے۔ امریکا،عرب ممالک سے امداد وصول کررہا ہے۔سو جان لینا چاہیے کہ خالق کائنات نے قضا و قدر کے فیصلے اپنے ہی ہاتھ میں رکھے ہیں۔ چھوٹا گروہ ہو یا بڑی قوم،اس کے اختیارات کوئی استعمال نہیں کرسکتا۔
