اکیلا بھیڑیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کالم روزنامہ اسلام : باتیں ،رشید احمد منیب
امریکی ریاست لاس ویگاس میں ہونے والی فائرنگ کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی ہے۔لاس ویگاس کنٹری میوزک فیسٹول عروج پر تھا جب اس پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ مینڈلے بے ہوٹل اینڈکیسینو کی بتیسویں منزل پرموجود چونسٹھ سالہ سفید فام اسٹیفن پیڈوک فیسٹول میں شریک بائیس ہزار لوگوں پر آگ برسانے لگا۔دس منٹ تک موت قہقہے لگاتی رہی۔ انسٹھ لوگ جان سے گئے جبکہ پانچ سو کے قریب زخمی ہوئے۔سیکورٹی گارڈ کی نشاندہی پر جس وقت پولیس پیڈوک کے کمرے تک پہنچی،وہ خودکشی کرچکا تھا،اس کے قریب دس گنیں موجو دتھیں، جبکہ اس کے کمرے سے انیس رائفلیں برآمدہوئیں۔
لاس ویگاس فائرنگ اور ہلاکتوں کی اطلاع دنیامیں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ایف بی آئی اس واقعے کی تحقیقات کے لیے پر تول رہی تھی کہ مدعی سست ،گواہ چست کے مصداق داعش نے حملہ اپنے سر لے لیا۔پیغام میں فخر سے کہا گیا کہ پیڈوک ان کا کارندہ تھا جس نے چند ماہ قبل ہی اسلام قبول کیاتھا۔سوال یہ پیدا ہوا کہ خودکش حملے تو داعش نے روا کر ہی رکھے ہیں لیکن کیا شراب نوشی اور خود کشی بھی اس کے نزدیک حلال اور باعث اجر وثواب ہے ؟موت پھیلانے سے کچھ دیر قبل پیڈوک ہوٹل کے بار میں دیکھاگیا تھا جہاں اس نے دبا کر شراب نوشی کی تھی۔ خیر سے چونسٹھ سالہ’’ بزرگ‘‘ پیڈوک نے ایک فلپائنی سہیلی بھی پال رکھی تھی جس سے تحقیقات بے سود رہیں۔وہ صرف اتنا ہی بتا سکی کہ پیڈروک صبح اٹھ کر چیختاچلاتاتھا ۔وہ بے چینی دور کرنے والی دوا ’’ویلیم ‘‘کاعادی تھا۔یوں اسلام فوبیا پھیلانے والی صنعت کوئی نیا ڈھنڈورانہ پیٹ سکی۔ پیڈوک کااسلام یاداعش سے کوئی واسطہ ثابت نہ ہوا۔ پیڈوک ایک جواری تھا،اس نے ایک سال کے دوران تیس سے زائد خطرنا ک گنیں خریدی تھیں، اس کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے سے بھید کھلاکہ وہ کئی دنوں سے مختلف شہروں میں مارا مارا پھر رہا تھا اورکسی فیسٹول پر حملے کے لیے موقع کی تاک میں تھا،لیکن گزشتہ دنوں میں ہونے والے کسی فیسٹول کے قریب اسے ایسا ہوٹل نصیب نہیں ہوا جس کی کھڑکیوں میں وہ اطمینان سے گن تان کر جی بھر کر فائرنگ کر تا۔یہ سہرا مینڈلے بے ہوٹل اینڈ کیسینو کی قسمت میں تھا۔
اب سوال اٹھا کہ چونسٹھ سالہ پیڈوک نے یہ معرکہ آرائی کس بنا پر کی ؟ بعض امریکی اخبارات نے بلا ثبوت پیڈوک کو داعش کا رکن بناڈالا لیکن یہ کہانی چل نہ سکی ۔اسلام یا داعش سے وابستگی کا کوئی سرا ہاتھ لگ جاتا توعراق اور افغانستان جیسے کیسوں کی طرح امریکی ایجنسیوں کی تحقیقات مکمل تھیں لیکن پیڈوک تو وائٹ مین یعنی گورا ہی نکلا ۔سونسل پرست ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت ساٹھ افراد کے قاتل کو ’’دہشت گرد ‘‘ کہنے سے کنی کترا گئی ۔لانس ویگاس فیسٹول اٹیک پر’’ ٹیررازم‘‘ کی’’ تہمت‘‘ نئی نسل کی سوچ کا زاویہ بدل سکتی ہے۔ امریکا کے ذہین نوجوان سوچ سکتے ہیں کہ دہشت گردی مسلمانوں کے ساتھ تو خاص نہ ہوئی۔یہ کام تو وائٹ مین بھی کر سکتے ہیں۔دہشت گرد کہنے سے گوری رنگت کا امیج بگڑ سکتا ہے۔ٹرمپ اور ری پبلکن پارٹی کا ہدف سفید رنگت کی بالادستی کو قائم کرنا ہے ،کسی سفیدفام کودہشت گرد قرار دلوانا نہیں۔
میڈیا نے ابھی تک سفید فام پیڈوک کو ’’دہشت گرد ‘‘ نہیں مانا۔اسے ’’اکیلا بھیڑیا ‘‘ کاخطاب دیا گیاہے۔امریکا کی جنگجو تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس معاشرے میں ’’اکیلا بھیڑیا‘‘ اتنا بر ا لفظ نہیں کہ پیڈوک خاندان کے باقی لوگ اس پر ناراض ہوں ۔یہ تو الٹا بہادری کا تمغہ نظرآتاہے ۔جو شخص زندگی میں کچھ نہ کر سکے ،وہ جوئے سے رقم کمائے، امریکا کی کھلی اسلحہ منڈی سے مرضی کے ہتھیار خریدے اور کسی دن موقع پا کر دھنادھن فائرنگ کرے اور امریکا کی تاریخ میں اپنا نام امر کر جائے ۔معلوم نہیں کیوں ایک نوجوان نسل پرست نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر پیغام دیا ہے کہ شیر کی زندگی کا ایک دن بھیڑ کی زندگی کے سو دنوں سے بہتر ہے۔امریکی صدر ٹرمپ لاس اینجلس پہنچے تو عام خیال تھا کہ امریکا میں اسلحے کی آزادی کے قانون پر بات ہوگی ۔ترمیم کا عندیہ دیا جائے گا لیکن ٹرمپ محض اظہار افسوس سے آگے نہ بڑھے۔بہت سے لوگوں کو یقین نہیںآیا کہ امریکی صدر اس قدرجذباتی موقع پر اتنے ’’ٹھس‘‘ ثابت ہوسکتے ہیں۔دراصل ٹرمپ جیسا بزنس مین اسلحے کی تجارت کو زک نہیں پہنچا سکتا ۔ گھوڑا گھاس سے دوستی نہیں کرسکتا۔کیا ریببلکن پارٹی کے لیڈروں کا اسلحے کے بزنس سے واقعی سے کوئی تعلق نہیں ؟
امریکا میں اسلحے کی فراوانی ہے۔ خواتین اسلحے کی خریداری میں مردوں سے سبقت لے گئی ہیں۔ امریکا میں پچپن ملین لوگوں کے پاس ذاتی اسلحہ ہے۔سات ملین سے زائد لوگ آٹھ سے لے کر ایک سو چالیس تک گنیں رکھتے ہیں۔تین فیصد افرادپچاس فیصد سویلین اسلحے کے مالک ہیں۔امریکا میں دوسو پینسٹھ ملین گنیں موجود ہیں۔ ہر سال تقریباچار لاکھ سے زائد گنیں چوری ہوتی ہیں۔اسلحے کی بہتات اور آبادی کے تناسب کا موازنہ کیا جائے تو تین سالوں میں کھلے عام فائرنگ کے ایک ہزار سات سو پینتیس واقعات آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔تین سالوں میں ایک ہزار سات سوانیس لوگ مارے گئے جبکہ چھ ہزار پانچ سو دس زخمی ہوئے ۔تیس کروڑ کی آبادی میں یہ حقیر تعداد کس گنتی کے قابل ہے ؟یہ مٹھی بھر قتل امریکی سرمایہ داروں کو متأثر نہیں کرسکتے۔
سانحہ لاس اینجلس کے بعد مختلف تنظیمیں اسلحہ قوانین میں ترمیم کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ اسلحے کی کھلی فروخت کو نئے قوانین کے تحت پابند نہ کیا گیا تو آئندہ بھی ایسے واقعات جنم لے سکتے ہیں۔لیکن ان تنظیموں کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔’’ماس کلنگ‘‘کے واقعات کو حکومت دہشت گردی میں شمار ہی نہیں کرتی ۔ کیوں؟اس لیے کہ سرمایہ دار طبقہ ناراض ہوجائے گا ۔چنانچہ اکیلے بھیڑیے یعنی سفید فام اسٹیفن پیڈوک کونفسیاتی مریض جتاکر قومی ہمدردی کا ماحول تخلیق کیا جارہا ہے۔ یہ کام کسی مسلمان نے کیا ہوتا تو ایک نیا ’’نائن الیون‘‘ تیار تھا ۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کیااسٹیفن پیڈوک واقعی ’’اکیلا بھیڑیا‘‘ تھا ؟ ری پبلکن نسل پرست سرمایہ دار کیا بھیڑیوں سے کم ہیں؟
